• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 3327

    عنوان:

    زید کی عمر۲۱/ سال ہے ، جب زید ۱۷/ سال کا تھاتو اس کے والد نے اس کی شادی کی بات اس کے مامو کی بیٹی کے ساتھ کی تھی ، لڑکی عمر اس وقت تقریبا ۱۳/ سال کی تھی، اب وہ سولہ سال کی ہے۔ زید اس وقت بھی اپنے مامو کی بیٹی کو پسند نہیں کرتاتھا مگر والدین کی عزت کے لیے خاموش تھا۔ اب پچھلے ۱۸/ مہینیوں سے وہ ایک لڑکی کو پسند کرتاہے اوراس سے شادی کرنا چاہتاہے مگر اس کے والد صاحب کا خیال نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے زبان دیدی ہے اور وہ بلاوجہ انکار بھی نہیں کرسکتے ہیں، اس لیے زید اپنی مامو زاد بہن سے شادی کرے جب کہ زید کسی بھی حال میں اس کو پسند نہیں کرتاہے۔ اس کے والد صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ کیوں اس نے پہلے مامو زاد بہن کو دیکھی ہے اور اس سے بات بھی کی ہے اس لیے اس لڑکی کا پہلے حق ہے۔ دونوں لڑکیوں میں کوئی خامی نہیں ہے ، بات صرف پسند کی اور نا پسند کی ہے، زید دوسری لڑکی کو چاہتاہے۔ اس کے والد صاحب کہتے ہیں وہ اپنی مامو زاد بہن سے رابطہ رکھے اور پرکھے کہ وہ کیسی ہے اور اس عرصہ میں وہ دوسری لڑکی سے بات نہ کرے۔ اگر وہ لڑکی بھی ٹھیک نکل آتی ہے اور دوسری لڑکی کو اپنے والدین کے کہنے پر چھوڑدیتاہے تو کیا اس لڑکی کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا؟ وہ تو اسے معاشقہ سمجھیگی؟ایسی صور ت میں زید کیا کرے؟ کیا وہ اپنے والد صاحب کی بات مانے (جب کہ زید راضی نہیں ہے اور کوئی پتہ نہیں کہ شادی کے بعد کیا حالات پیش آئے ، دوسرے الفاظ میں یہ صرف سمجھوتا ہے یا رسک)زید دوسری لڑکی کو چھوڑ بھی نہیں سکتاہے کیوں وہ اسے پسند کرتاہے اور اس کو ساری باتوں سے آگاہ بھی کرچکاہے۔ پسند کی شادی کے متعلق اسلام کیا کہتاہے جبکہ لڑکے کی ماں راضی ہوں ، لیکن باپ نہیں۔

    سوال:

    زید کی عمر۲۱/ سال ہے ، جب زید ۱۷/ سال کا تھاتو اس کے والد نے اس کی شادی کی بات اس کے مامو کی بیٹی کے ساتھ کی تھی ، لڑکی عمر اس وقت تقریبا ۱۳/ سال کی تھی، اب وہ سولہ سال کی ہے۔ زید اس وقت بھی اپنے مامو کی بیٹی کو پسند نہیں کرتاتھا مگر والدین کی عزت کے لیے خاموش تھا۔ اب پچھلے ۱۸/ مہینیوں سے وہ ایک لڑکی کو پسند کرتاہے اوراس سے شادی کرنا چاہتاہے مگر اس کے والد صاحب کا خیال نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے زبان دیدی ہے اور وہ بلاوجہ انکار بھی نہیں کرسکتے ہیں، اس لیے زید اپنی مامو زاد بہن سے شادی کرے جب کہ زید کسی بھی حال میں اس کو پسند نہیں کرتاہے۔ اس کے والد صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ کیوں اس نے پہلے مامو زاد بہن کو دیکھی ہے اور اس سے بات بھی کی ہے اس لیے اس لڑکی کا پہلے حق ہے۔ دونوں لڑکیوں میں کوئی خامی نہیں ہے ، بات صرف پسند کی اور نا پسند کی ہے، زید دوسری لڑکی کو چاہتاہے۔ اس کے والد صاحب کہتے ہیں وہ اپنی مامو زاد بہن سے رابطہ رکھے اور پرکھے کہ وہ کیسی ہے اور اس عرصہ میں وہ دوسری لڑکی سے بات نہ کرے۔ اگر وہ لڑکی بھی ٹھیک نکل آتی ہے اور دوسری لڑکی کو اپنے والدین کے کہنے پر چھوڑدیتاہے تو کیا اس لڑکی کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا؟ وہ تو اسے معاشقہ سمجھیگی؟ایسی صور ت میں زید کیا کرے؟ کیا وہ اپنے والد صاحب کی بات مانے (جب کہ زید راضی نہیں ہے اور کوئی پتہ نہیں کہ شادی کے بعد کیا حالات پیش آئے ، دوسرے الفاظ میں یہ صرف سمجھوتا ہے یا رسک)زید دوسری لڑکی کو چھوڑ بھی نہیں سکتاہے کیوں وہ اسے پسند کرتاہے اور اس کو ساری باتوں سے آگاہ بھی کرچکاہے۔ پسند کی شادی کے متعلق اسلام کیا کہتاہے جبکہ لڑکے کی ماں راضی ہوں ، لیکن باپ نہیں۔

    جواب نمبر: 3327

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 207/ ج= 303/ ج

     

    بالغ آزاد کو اختیار ہے کہ چاہے جہاں مسلمان لڑکی سے نکاح کرلے۔ لیکن ماں باپ کی رائے کا لحاظ رکھنے میں فائدہ ہے، ان کو ناراض کرکے نکاح کرنا اچھا نہیں ہے، کیوں کہ والدین یہ اولاد کے بارے میں اچھی طرح سوچتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند