• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 176787

    عنوان: قلیل مقدار میں دودھ حلق میں پہنچنے كا ظن غالب ہو تو كیا حكم ہے؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکا اورلڑکی کے درمیان بچپن میں رشتہ طے ہوا تھا۔اب دونوں کی پھوپھی ہیں جو کہتی ہیں کہ لڑکے کوتو میں نے دودھ دیا تھا اور یہ لوگوں میں بھی مشہور ہے لیکن لڑکی کو بھی میں نے ایک بار چھاتی دی تھی جس کا صورت حال یہ تھا کہ پہلی وہ لڑکی میرا دودھ نہ پیتی تھی لیکن پھر کچھ وقت میری چھاتی اس کی منہ میں تھی پھر جب اس نے منہ ہٹایا تو اس کی منہ سے کچھ دودھ باہر بہہ رہا تھا اور میرے پیٹ پر بھی لگاتھا لیکن یہ مجھے معلوم نہیں کہ اس نے دودھ پی لیا تھا یا نہیں یعنی دودھ حلق کے اندر گیا یا نہیں۔پھوپھی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بچی بوتل کا دودھ پیتی تھی اور بوتل کا عادی بچہ عام طور پرچھاتی کا دودھ نہیں پیتا۔ اب کیا لڑکی کی رضاعت پھوپھی سے ثابت ہے یا نہیں اوردونوں کے درمیان نکاح درست ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 176787

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 771-579/H=06/1441

    مذکورہ فی السوال لڑکی نے چھاتی (پستان) منہ میں لی اور اتنا دودھ نکلا کہ منہ سے دودھ باہر بہہ رہا تھا تو غالب گمان یہی ہے کہ کچھ دودھ حلق میں ضرور پہونچ گیا ہوگا اور تھوڑی سی مقدار حلق میں پہونچنے پر رضاعت کا تحقق ہو جاتا ہے۔ قلیل الرضاع وکثیرہ اذا حصل فی مدة الرضاع تعلق بہ التحریم کذا فی الہدایة قال فی الینابیع والقلیل مفسر بما یعلم انہ وصل الی الجوف کذا فی السراج الوھاج اھ الفتاوی الہندیة: ۱/۳۴۲، پس مذکور فی السوال لڑکے اور لڑکی نے اپنی پھوپھی کا دودھ پیا ہے لڑکے کا دودھ پینا تو بالکل ظاہر و باہر ہی ہے اور لڑکی کے متعلق پھوپھی نے جو کچھ بیان کیا ہے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ غالب گمان یہی ہے کہ دودھ لڑکی کے حلق میں بھی چلا گیا ہے ایسی صورت میں دونوں (لڑکا اور لڑکی) رضاعی بھائی بہن ہوگئے لہٰذا دونوں کا نکاح آپس میں حلال نہ ہوگا۔ اور بہر صورت احتیاط بھی نکاح نہ کرنے ہی میں ہے۔ المرأة إذا جعلت ثدیہا فی فم الصبي ولا تعرف أ مص اللبن أم لا؟ ففی القضاء لا تثبت الحرمة بالشک وفی الاحتیاط تثبت اھ (المصدر السابق: ۱/۳۴۴) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند