• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 176334

    عنوان: كسی لڑكی كا ولی کے بغیر نکاح كرنا؟

    سوال: ولی کے بغیر نکاح کر سکتی ہوں یا نہیں؟ میری عمر 17 سال ہے اور لور {بوائے فرینڈ }کی عمر 36 سال۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس کی شرط ہے کہ ڈاکٹر بنو تو شادی کروں۔ 5 سال میں اس کی شادی کہیں اور ہو گئی تو میرا کیا بنے گا؟ میں چھپ کے شادی کر سکتی ہوں یا نہیں؟ پڑھائی تک والدین ساتھ ہی رہوں گی۔

    جواب نمبر: 176334

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 514-31T/M=06/1441

    عاقلہ بالغ لڑکی ولی کے بغیر اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے لیکن یہ پسندیدہ نہیں، شرع میں یہ مطلوب ہے کہ ولی کی اجازت سے نکاح کیا جائے، بعض احادیث میں ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کے کیے ہوئے نکاح کو باطل قرار دیا گیا ہے، حنفیہ کے یہاں اگرچہ باطل نہیں ہے، صحت کی شرائط کے ساتھ نکاح منعقد ہو جاتا ہے لیکن بہرحال یہ مستحسن نہیں کہ لڑکی از خود اقدام کرے، اسے چاہئے کہ نکاح کا معاملہ اولیاء کے حوالہ کردے، اگر لڑکی نے اپنی مرضی سے غیر کفو میں نکاح کرلیا تو ایسی صورت میں ولی کو اعتراض کا حق بھی ہوتا ہے یعنی ولی اگر چاہے تو بذریعہ شرعی پنچایت اس نکاح کو ختم بھی کرواسکتا ہے، اس لئے صورت مسئولہ میں آپ کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کرنا چاہئے، جب والدین حیات ہیں تو ان کی اجازت و مشورے سے شادی کریں والدین اپنی اولاد کے حق میں سب سے زیادہ شفیق و مہربان ہوتے ہیں، اور مصالح سے خوب واقف ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنی شفقت و تجربہ کی بنیاد پر بہتر رشتے کا انتخاب کرتے ہیں، اگر آپ کو مذکورہ لڑکے سے ہی شادی کرنی ہے تو والدین سے بتاکر ان کی اجازت و رضامندی سے کرنے میں کیا پریشانی ہے؟ چھپ کر شادی کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ شادی تو اعلانیہ کرنا مطلوب ہے، اور یہ بھی جان لیں کہ نکاح سے پہلے اجنبی لڑکے سے پیار و محبت کا معاملہ حرام و ناجائز ہے، آپ کا اپنے بوائے فرینڈ کے متعلق یہ کہنا کہ ”میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی ․․․․․․․ اور ․․․․․․․ اس کی شادی کہیں اور ہوگئی تو میرا کیا بنے گا․․․․․․․“ یہ انتہائی بے غیرتی کی بات ہے جس کی شادی جہاں مقدر ہوتی ہے وہیں ہوتی ہے، اس کے پیچھے پاگل ہونے کی ضرورت نہیں، خود کو اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں، اللہ تعالی سے خیر کے رشتے کی دعا کرتی رہیں اور والدین کے مشورے پر عمل کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند