• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 163914

    عنوان: ”مہر“ سے متعلق متعدد سوالات

    سوال: حضرت، میرا نکاح جون ۲۰۱۸ء میں ہوا۔ میں متوسط فیملی سے ہوں۔ میرا مہر 51000 طے ہوا تھا۔ ظاہر سی بات ہے اتنی بڑی رقم میں لڑکی کو شادی سے پہلے یا فوراً بعد ادا نہیں کرسکتا تھا، اس لئے میں نے صحبت سے پہلے اپنی بیوی سے اجازت لے لی کہ مہر کی رقم میں دھیرے دھیرے تم کو بعد میں ادا کروں گا۔ سوال یہ ہے کہ: (۱) اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟ میرے دل میں اس کو ادا کرنے کی نیت ہے۔ (۲) ہمارے گھر والوں نے ہماری بیوی کو شادی میں 14000 کے زیور سونے کے دئے تھے، کیا ہم اسے مہر میں شمار کرسکتے ہیں؟ دینے سے پہلے ہم نے لڑکی کو بتایا نہیں تھا، بعد میں جب ہمیں احساس ہوا کہ یہ زیور ہم اس کو مہر بول کر دے سکتے تھے پھر اگر ہم بیوی کو بعد میں بتادیں تو یہ رقم مہر میں شمار ہوگی؟ (۳) بیوی کو مہر کی رقم دینے سے پہلے بتانا ہوگا؟ یا پھر دل میں نیت کرنے سے ادا ہو جائے گا؟ (۴) اُس کی ضروریات کے علاوہ ہم جو چیز دیتے ہیں اس کو مہر میں شمار کر سکتے ہیں؟ (۵) کسی دوسرے آدمی کا دیا ہوا پیسہ سے مہر ادا ہو جائے گا؟ مہربانی کرکے جواب عنایت فرمائیں۔ میں بہت پریشان ہوں۔

    جواب نمبر: 163914

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1195-225T/SN=12/1439

    (۱) نہیں، اس میں گناہ کی کوئی بات نہیں۔

    (۲) اگر دیتے وقت ہدیہ اور تحفہ کی نیت سے دیا تھا تو اب اس میں مہر کی نیت کرنا درست نہیں ہے۔

    (۳) بتاکر دینا چاہئے؛ تاکہ بعد میں کوئی نزاع نہ ہو۔

    (۴) شمار کرسکتے ہیں بشرطیکہ بیوی ان چیزوں کو مہر کے طور پر لینے پر راضی ہو یعنی جب دینا ہو بیوی کو بتلادیا جائے اگر وہ مہر کے طور پر لے لے تو یہ چیزیں مہر میں سے شمار ہو جائیں گی۔

    (۵) اگر کوئی دوسرا شخص آپ کو ہدیة رقم دے اور آپ وہ رقم بیوی کو مہر کے طور پر دیدیں تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جائز ہے؛ باقی اگر آپ کے سامنے دوسرے کے پیسہ دینے کی کوئی اور صورت ہے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کر لیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند