• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 160414

    عنوان: رضاعی بہن کی بیٹی یا اس کی بیٹی کی بیٹی سے نکاح کیا اور اولاد ہوئی تو اب نکاح ، نسب اور وراثت کا کیا حکم ہوگا

    سوال: کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام مسئلہ مذکورہ کے متعلق ایک بہن جس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی، اس کے بھائی نے اپنابیٹا 3 دن کا اس کو دے دیا ۔اس بھائی کے بیٹے نے بہن کی بیٹی کے ساتھ دودھ بھی پیا اور پھر ۔اپنی رضاعی بہن کی بیٹی کی بیٹی کے ساتھ اس کا نکاح کر دیا جو کہ رشتے میں اسکی بھانجی لگی ۔اور اب اس کا ایک بیٹا بھی ہے ۔جو بھائی نے بہن کو بیٹا دیا تھا اس کے شناختی کارڈ میں والد کی جگہ بہن کے شوہر کا نام ہے ۔جو اسکا رضاعی والد بھی ہوا۔ سوال نمبر (1) کیا اس طرح کا نکاح جائز ہے ؟ سوال نمبر (2) اگر جائز نہیں تو پھر انکا شریعت کی روح سے کیا حل ہے ؟ سوال نمبر (3) کیا وہ رضاعی بیٹا واراثت کا بھی حق دار ہے ؟ سوال نمبر (4) رضاعی بیٹے کا بیٹا اس کی اب شریعت کی روح کیا حکم ہے ؟وہ کس کے ساتھ وارثت میں شریک ہو گا ؟ شریعت کی روح سے رہنمائی فرمائیں ۔جزاکم اللہ

    جواب نمبر: 160414

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:780-666/N=7/1439

    (۱، ۲): شریعت میں نسبی بہن کی طرح رضاعی بہن، رضاعی بہن کی بیٹی یا رضاعی بہن کی بیٹی کی بیٹی سے نکاح حرام ہوتا ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر لڑکے کا نکاح اس کی رضاعی بہن کی بیٹی سے یا رضاعی بہن کی بیٹی کی بیٹی سے ہوا تو یہ نکاح بلاشبہ ناجائز وحرام ہے، دونوں کے درمیان فوراً تفریق وعلیحدگی لازم ہے۔ اور اب تک لاعلمی میں جو کچھ ہوا، اس سے سچی توبہ بھی ضروری ہے۔

    یحرم علی الرضیع أبواہ من الرضاع وأصولھما وفروعھما من النسب والرضاع جمیعاً ……فالکل إخوة الرضیع وأخواتہ وأولادھم أولادہ إخوتہ وأخواتہ… کذا فی التہذیب (الفتاوی الھندیة، کتاب الرضاع، ۱: ۳۴۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    (۳): رضاعی بیٹا صرف اپنے ماں، باپ یا حسب شرائط بھائی بہن کا وارث ہوگا، رضاعی باپ (پھوپھا)یا رضاعی ماں (پھوپھی) کا بہ حیثیت رضاعی بیٹا وارث نہ ہوگا؛ کیوں کہ رضاعت سے صرف حرمت ثابت ہوتی ہے، وراثت کا استحقاق نہیں۔

    ویستحق الإرث ……بأحد ثلاثة:برحم ونکاح صحیح …وولاء (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۴۹۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۴): رضاعی بیٹے کو جو بیٹا ہوا، وہ عقد نکاح کے شبہ کی وجہ سے بہرحال ثابت النسب ہوگا، راجح ومفتی بہ قول یہی ہے(فتاوی محمودیہ ، ۱۳: ۵۵۱، جواب سوال: ۶۶۴۷، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل)، اور وہ اپنے ماں باپ کا وارث بھی ہوگا۔

    وإن تزوجھما في عقدتین فنکاح الأخیرة فاسدة ویجب علیہ أن یفارقھا ولو علم القاضي بذلک یفرق بینھما فإن فارقھا قبل الدخول لا یثبت شییٴ من الأحکام وإن فارقھا بعد الدخول فلھا المھر ویجب الأقل من المسمی ومن مھر المثل وعلیھا العدة ویثبت النسب ویعتزل عن امرأتہ حتی تنقضی عدة أختھا کذا فی محیط السرخسي (الفتاوی الھندیة، ۱: ۲۷۷، ۲۷۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، رجل مسلم تزوج بمحارمہ فجئن بأولاد یثبت نسب الأولاد منہ عند أبي حنیفة رحمہ اللہ تعالی خلافا لھما بناء علی أن النکاح فاسد عند أبي حنیفة رحمہ اللہ تعالی، باطل عندھما کذا فی الظھیریة (المصدر السابق، ص: ۵۴۰)، والفتوی عند الحنفیة علی قول أبي حنیفة(الموسوعة الفقہیة، ۲۴: ۲۹، ط: الکویت)، وانظر رد المحتار (کتاب الحدود، باب الوطء الذي یوجب الحد ووالذي لا یوجبہ، ۶: ۳۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند) أیضاً ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند