• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 154562

    عنوان: اگر کسی عورت نے زاہد کو دودھ پلایا تو صرف زاہد اس عورت كی كسی بیٹی سے شادی نہیں کرسکتا یا زاہد کے دوسرے بہن بھائی بھی شادی نہیں کرسکتے؟

    سوال: حضرت، رضاعت سے متعلق چند مسائل شادی کے سلسلے میں معلوم کرنے ہیں۔ (۱) اگر کسی عورت نے زاہد کو دودھ پلایا تو زاہد اس عورت کے کسی بیٹے یا بیٹی سے شادی نہیں کرسکتا؟ یا زاہد کے دوسرے بہن بھائی بھی شادی نہیں کرسکتے؟ کیا دونوں طرف کے سب بہن بھائی رضائی مانے جائیں گے؟ (۲) کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بچہ نے اگر کسی عورت کا دودھ دو سال کی عمر کے اندر اندر کم از کم پانچ مرتبہ یا شکم سیر ہو کر یا ایک قطرہ بھی پیا ہو تو رضاعت قائم ہو جاتی ہے، صحیح مقدار کیا ہے؟ (۳) اگر دودھ پینے والا بچہ دو سال سے کچھ اوپر ہو تو کیا حکم ہے؟ (۴) رضاعت کے لیے گواہوں کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 154562

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1382-1340/sd=1/1439

    (۱) زاہد کے لیے دودھ پلانے والی عورت کی کسی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے ؛ اس لیے کہ مرضعہ کے بیٹے اور بیٹیاں زاہد کے رضاعی بھائی بہن بن گئے ، ہاں زاہد کے دوسرے بہن بھائی کا نکاح مرضعہ کی اولاد سے ہوسکتا ہے ، زاہد کے دودھ پینے کی وجہ سے دونوں طرف کے سب بھائی بہن رضاعی نہیں بنیں گے ۔

    (۲) مدت رضاعت میں ایک گھونٹ بھی دودھ حلق میں جانے سے حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے ، پانچ مرتبہ یا شکم سیر ہوکر پینا ضروری نہیں ہے ۔

    (۳) چاند کے حساب سے دو سال سے کچھ زیادہ عمر میں دودھ پینے سے راجح قول کے مطابق حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوجاتی ہے ۔

    (۴) رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے ۔ قال الحصکفی : ہو (حولان ونصف عندہ وحولان) فقط (عندہما وہو الأصح) فتح وبہ یفتی کما فی تصحیح القدوری عن العون ۔۔۔۔۔ والأصح أن العبرة لقوة الدلیل ۔۔۔۔۔(ویثبت بہ)۔۔۔۔(وإن قل)۔۔۔۔۔۔(و) الرضاع (حجتہ حجة المال) وہی شہادة عدلین أو عدل وعدلتان ۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۲۰۹/۳، ۲۲۴، باب الرضاع ، ط:دار الفکر، بیروت )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند