معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 152952
جواب نمبر: 152952
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1195-1159/N=11/1438
(۱): نکاح سے پہلے لڑکا لڑکی آپس میں مکمل طور پر اجنبی اور غیر ہوتے ہیں اگرچہ رشتہ طے ہوچکا ہو یا دونوں اور دونوں کے ماں باپ شادی کے لیے راضی ہوچکے ہوں؛ اس لیے نکاح سے پہلے لڑکا، لڑکی کا آمنے سامنے یا موبائل فون پر بات چیت وغیرہ کرنا درست نہیں، جب تک نکاح نہ ہوجائے، اجنبی لڑکوں اور لڑکیوں کی طرح ان سب کاموں سے احتیاط لازم ہے۔(فتاوی رحیمیہ ۸: ۱۵۱، سوال: ۱۹۰، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ ۶: ۸۴، ۸۵، مطبوعہ: مکتبہ لدھیانوی، کراچی )۔
وینعقد بإیجاب وقبول (تنویر الأبصار مع الدر والرد،کتاب النکاح ۴: ۶۸، ۶۹ط مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وینعقد“: ……والحاصل:أن النکاح والبیع ونحوہما وإن کانت توجد حسا بالإیجاب والقبول، لکن وصفہا بکونہا عقوداً مخصوصة بأرکان وشرائط یترتب علیہا أحکام وتنتفی تلک العقود بانتفائہا وجود شرعي زائد علی الحسی الخ (رد المحتار)۔
(۲): حسب ضرورت ومصلحت جلد از جلد نکاح کے لیے کسی قابل اعتماد وسمجھ دار ثالث کے ذریعے والدین تک پیغام پہنچانا چاہیے اور اللہ تعالی دعا بھی کرنی چاہیے تاکہ نکاح سے پہلے کوئی ناجائز کام سر زد نہ ہو، اس کے لیے سب سے بڑا وظیفہ دعا ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند