• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 151911

    عنوان: کیا اس طرح کا جملہ کہنے کے بعد میرا ایمان اور نکاح برقرار ہے ؟

    سوال: کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنی بیوی سے کاروباری معاملے کی بات چیت کے دوران کہہ دیا تھا کہ"جب تمہیں رزق کے معاملے میں اللہ پر بھروسا نہیں تو ایسی نماز پڑھنے پر لعنت ہے جب تم مسبب الاسباب سے زیادہ اسباب پر بھروسہ کرتی ہو"’ یہ مکالمہ ایک کلائنٹ کو حد سے زیادہ ڈسکاونٹ دینے پر ہوا کہ کہیں ناراض ہو کر کہیں اور نہ چلا جائے ۔ اب سوال یہ ہے چونکہ میری نیت نماز کو برا کہنے کی نہیں بلکہ اللہ پر توکل کی دلیل دینے کی تھی تو کیا میری اس جہالت، کج علمی اور غصہ کی بنیاد پر کہے گئے ان الفاظ سے میرے ایمان اور نکاح پر کوئی فرق تو نہیں آیا؟اور بدستور سب برقرار ہے ؟ یا پھر مجھے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنے کی ضرورت ہے؟ اور دونوں صورتوں میں اس کا کفارہ اور حل کیا ہے ؟ تفصیلی جواب عطا فرمائیے ۔

    جواب نمبر: 151911

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1143-1130/M=9/1438

    اگر واقعہ یہی ہے کہ آپ کی نیت نماز کو برا کہنے کی ہرگز نہیں تھی تو صورت مسئولہ میں تجدید ایمان ونکاح کا حکم نہیں، لیکن مذکورہ جملہ بہرحال نہیں کہنا چاہیے تھا اس لیے توبہ استغفار کریں اور آئندہ ایسی بات کہنے سے احتیاط رکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند