• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 151051

    عنوان: والدین كو بتائے بغیر نكاح كرنا

    سوال: میرا سوال ہے کہ زید اور فاطمہ نے اپنی مرضی سے گناہوں سے بچنے کے لیے فیملی ممبر یعنی دونوں لڑکا لڑکی اپنے والدین کو بتائے بغیر اسلامی طریقے سے دو گواہوں اور قاضی نکاح کے سامنے نکاح کرلیا اور فیملی کو اس لیے نہیں اطلاع دی تاکہ وہ دونوں فیملی سمجھ کر سامنے سے اس کی شادی کرائے۔ میں علمائے کرام سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا شوہر اور بیوی کے وہ سارے اسلامی احکامات ایک دوسرے پر ابھی سے لازم آئیں گے؟ اور یہ بھی واضح فرمادیں کہ شوہر ہونے والی بیوی پر اپنا حق، اور بیوی اپنا حق شوہر پر دعوی کرسکتی ہے؟ وہ سارے احکامات جو ایک سمجھدار والدین کے سامنے شادی کے بعد لازم آتے ہیں وہ ابھی سے ہی لازم آئیں گے؟ اور بیوی اپنے والدین کے کہنے پر چلے گی؟ یا اس کو اپنے شوہر کی بات ماننی پڑے گی؟

    جواب نمبر: 151051

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 745-605/D=8/1438

    اسلامی طریقے پر دو مسلمان مرد گواہوں کی موجودگی میں بالغ لڑکے اور بالغہ لڑکی نے نکاح کا ایجاب وقبول کرلیا تو شرعاً نکاح ہوگیا، رشتہ نکاح کے نتیجہ میں جو حقوق ایک دوسرے پر عائد ہوتے ہیں وہ یہاں بھی لازم ہوجائیں گے اور ایک دوسرے سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکتے ہیں، بیوی اپنے والدین اور شوہر دونوں کے حقوق ادا کرے گی اور ہرایک کے دائرہ میں اس کا کہنا مانے گی اسی طرح شوہر بیوی اور اپنے والدین تینوں کے حقوق ادا کرے گا؛ البتہ اگر لڑکا لڑکی کا ہم کفو نہیں ہے بلکہ کمتر ہے تو پھر لڑکی کے اولیاء نکاح کی خبر ملتے ہیں اگر اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیں تو انھیں حق ہوگا کہ شرعی پنچایت میں درخواست دے کر اس نکاح کو فسخ کرادیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند