• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 150034

    عنوان: کیا شادی سے پہلے لڑکی دیکھنے کے لئے فوٹو مانگا نا جائز ہے ؟

    سوال: کیا شادی سے پہلے لڑکی دیکھنے کے لئے فوٹو مانگا نا جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 150034

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 651-613/N=7/1438

    فوٹو میں اصلی شکل وصورت کا واضح ہونا ضروری نہیں، مشین یابعض سوفٹ ویئر کی مدد سے فوٹو خلاف واقع اچھی سے اچھی صورت میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے ؛ اس لیے رشتہ کے باب میں محض فوٹو کا دیکھنا کافی نہیں، نیز ایسے موقعہ پر لوگ مستقل طور پر فوٹو کھینچواتے ہیں؛ جب کہ اسلام میں بلا ضرورت شرعیہ فوٹو کھینچوانا حرام وناجائز ہے اور رشتہ کے لیے فوٹو کھینچوانا ضرورت شرعیہ کے دائرے میں نہیں آتا اور بلا ضرورت شرعیہ بالقصد وارادہ کسی جاندار کی تصویر دیکھنا بھی منع ہے ؛ اس لیے شادی سے پہلے لڑکی کا فوٹو مانگنا اور دیکھنا جائز نہیں ہے (فتاوی رحیمیہ جدید، کتاب الحظر والاباحة ۱۰: ۱۴۶، ۱۴۷، سوال: ۱۹۴، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی)۔

    عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”أشد الناس عذاباً عند اللہ المصورون“، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب التصاویر، الفصل الأول، ص ۳۸۵ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وعن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یخرج عنق من النار یوم القیامة لہا عینان تبصران وأذنان تسمعان ولسان ینطق، یقول: إنی وکلت بثلاثة: بکل جبار عنید وکل من دعا مع اللہ إلہا آخر وبالمصورین“رواہ الترمذي (المصدر السابق، الفصل الثاني، ص ۳۸۶)۔

    جواہر الفقہ (۷: ۲۶۴، ۲۶۵، رسالہ: تصویر کے شرعی احکام، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی) میں ہے: جن تصاویر کا بنانا اور گھر میں رکھنا ناجائز ہے، ان کا ارادہ اور قصد کے ساتھ دیکھنا بھی ناجائز ہے، …۔ وھذا کلہ مصرح في مذھب المالکیة وموٴید بقواعد مذھبنا ونصہ عن المالکیة ما ذکرہ العلامة الدردیر فی شرحہ علی مختصر الخلیل حیث قال: یحرم تصویر حیوان عاقل أو غیرہ إذا کان کامل الأعضاء إذا کان یدوم، وکذا إن لم یدم علی الراجح کتصویرہ من نحو قشر بطیخ، ویحرم النظر إلیہ إذ النظر إلی المحرم لحرام اھ ( از بلوغ القصد والمرام ص : ۱۹)۔ اور شامی (کتاب الطلاق، باب الرجعة۵: ۴۲مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) : میں ہے: وفي حاشیة الفتال: وذکر الفقیہ أبو اللیث في تأسیس النظائر أنہ إذا لم یوجد في مذھب الإمام قول في مسألة یرجع إلی مذھب الإمام مالک؛ لأنہ أقرب المذاھب إلیہ اھ، نیز احسن الفتاوی (۸: ۱۸۹، ۱۹۰مطبوعہ : ایچ، ایم سعید کراچی) اور مسائل خواتین موٴلفہ: حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی(۲: ۵۹۰) وغیرہ دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند