• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 149525

    عنوان: ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی کیا شرطیں ہیں؟ کیا ایک سے زیادہ نکاح کرنا سنت ہے؟

    سوال: حضرت مفتی صاحب! ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی کیا شرطیں ہیں؟ کیا ایک سے زیادہ نکاح کرنا سنت ہے؟

    جواب نمبر: 149525

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:  548-511/N=6/1438

    (۱): ایک سے زیادہ نکاح کرنے کے لیے، یعنی: بیک وقت نکاح میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے کے لیے اہم اور بنیادی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی ودینی حالات کی روشنی میں اپنے اوپر یہ بھروسہ رکھتا ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے درمیان حقوق واجبہ میں انصاف ووبرابری کرسکتا ہے، کسی ایک یا چند بیویوں کی طرف بہت زیادہ جھک کر دوسری بیویوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا۔ اور اگر کوئی شخص اپنے اوپر انصاف وبرابری کا بھروسہ نہیں رکھتا تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کرے، اس سے زیادہ کے چکر میں نہ پڑے۔ اور ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی صورت میں ان کے درمیان انصاف وبرابری آسان نہیں؛ اس لیے بلا ضرورت دوسری بیوی لانے کی کوشش قابل احتراز ہے بالخصوص ہندوستانی ماحول میں ؛ کیوں کہ ہندوستان اور اس جیسے دیگر ممالک میں دوسری شادی کے بعد عام طور پر پہلی بیوی کی طرف سے جو حالات پیش آتے ہیں وہ ہر ایک کے لیے قابل تحمل وبرداشت نہیں ہوتے۔

    قال اللہ تعالی:فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة الآیة (سورہ نسا، آیت:۳)،عن أبي ھریرةرضي الله عنه  عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”إذا کانت عند الرجل امرأتان فلم یعدل بینھما جاء یوم القیامة وشقہ ساقط“(مشکوة شریف ص ۲۷۹،بحوالہ: سنن ترمذی وسنن ابو داود وغیرہ، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، (یجب) وظاھر الآیة أنہ فرض، نھر (أن یعدل) أي: أن لا یجور (فیہ ) أي: فی القسم بالتسویة فی البیتوتة (وفی الملبوس والمأکول) والصحبة الخ ( الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب القسم، ۴: ۳۷۹،۳۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،(والبکر والثیب والجدیدة والقدیمة والمسلمة والکتابیة سواء) لإطلاق الآیة (المصدر السابق، ص:۳۸۴ ) ومکروھا لخوف الجور فإن تیقنہ حرم ذلک ( المصدر السابق، أول کتاب النکاح، ۴:۶۶)، قولہ: ”ومکروھا“:أي: تحریماً، بحر ، قولہ: ”فإن تیقنہ“أي: تیقن الجور ”حرم“؛ لأن النکاح إنما شرع لمصلحة التحصین وتحصیل الثواب وبالجور یأثم ویرتکب المحرمات فتنعدم المصالح لرجحان ھذہ المفاسد، بحر (رد المحتار)۔

    (۲):حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک سے زائد (نو تک )نکاح فرمائے، وہ مختلف اہم مصالح کے تحت تھا جیسا کہ علماء نے لکھا ہے، جن میں سے چار سے زائد نکاح آپ کی خصوصیات میں سے ہیں اور چار تک نکاح ہم لوگ بھی کرسکتے ہیں اور غلام وباندی کے زمانے میں غلام شخص کو صرف دو نکاح کی اجازت تھی؛ لیکن یہ صرف اجازت ہے، لازم وضروری یا سنت نہیں ہے؛ اسی لیے حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین وغیرہم نے عمومی طور پر چار نکاح کا اہتمام نہیں فرمایا؛ البتہ آدمی بہ وقت ضرورت عدل وانصاف کی شرط کے ساتھ کرسکتا ہے، جائز ہے اور اور ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے درمیان نا انصافی کرنا سخت گناہ کا کام ہے ؛ اس لیے اس میں احتیاط چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند