• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 148008

    عنوان: كیا وکالتِ نکاح پر گواہی ضروری ہے؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں دین متین مسائل ذیل میں:۱- عاقلہ بالغہ لڑکی کے نکاح کے لئے اس کے غیر ولی رشتہ دار نے اس سے متعین مہر پر متعین شخص سے نکاح کی اجازت مانگی، لڑکی نے کہا اجازت ہے ، لیکن اجازت لینے اور اجازت دینے کے وقت کوئی مرد گواہ نہ تھا، اس اجازت پر اجازت لینے والے نے مسجد میں جا کر نمازیوں کے سامنے ایک عالم سے نکاح پڑھوا دیا، یہ نکاح صحیح ہوا یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اجازت لینے کے وقت دو مرد گواہ نہیں تھے اس لیے نکاح صحیح نہیں ہوا. صحیح کیا ہے ؟ ۲- عاقلہ بالغہ کنواری لڑکی سے اس کے نکاح کے لئے اس کے غیر ولی رشتہ دار نے اس دو گواہوں کی موجودگی میں متعین مہر پر متعین شخص سے نکاح کی اجازت مانگی، لڑکی جواب میں خاموش رہی، اجازت مانگنے والے نے خاموشی کو اجازت پر محمول کر کے مسجد میں جا کر نمازیوں کے سامنے ایک عالم سے نکاح پڑھوا دیا اور لڑکی رخصت کر دی گئی، لڑکی اپنے شوہر سے خوشی کے ساتھ ہمکنار ہوئی، یہ نکاح صحیح ہوا یا نہیں؟بیّنوا وتوجروا۔

    جواب نمبر: 148008

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 475-384/L=4/1438

    (۱) وکالتِ نکاح پر گواہی ضروری نہیں، زیادہ سے زیادہ مستحب ہے؛ اس لیے اگر اجازت لینے والے شخص نے اس لڑکی کا باقاعدہ مجلسِ نکاح میں گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھوادیا تو نکاح صحیح اور درست ہوگیا: قال في الہندیة: یصح التوکیل بالنکاح وإن لم یحضرہ الشہود․ (الہندیة: ۱/۲۹۴)

    (۲) عاقلہ بالغہ کنواری لڑکی سے اگر غیر ولی اقرب اجازت نکاح طلب کرے تو ثیبہ کی طرح اس کو بھی زبان سے کہنا ضروری ہے،اگر غیروں نے نکاح کی اجازت طلب کی اور لڑکی اس وقت خاموش رہی اس نے سکوت کو اجازت سمجھ کر نکاح پڑھادیا تو اگر اس کے بعد لڑکی بخوشی رخصت ہوکر چلی گئی اور اس نے شوہر کو بخوشی قدرت دیدی وغیرہ تو یہ بھی رضامندی کی دلیل ہوگی اور نکاح درست تصور کیا جائے گا۔

    فإن استأذنہا غیر الأب کأجنبي أو ولي بعید فلا عبرة لسکوتہا بل لابد من القول کالثیب البالغة ․․․ أو ما في معناہ من فعل یدل علی الرضا كطلب مہرہا ونفقتہا وتمکینہا من الوطء ودخولہ بہا برضاہا․ ظہیریہ و”قبول التہنئة“ والضحک سرورًا ونحو ذلک․ (الدر المختار: ۴/ ۱۶۴ط زکریا باب الولی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند