معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 148008
جواب نمبر: 148008
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 475-384/L=4/1438
(۱) وکالتِ نکاح پر گواہی ضروری نہیں، زیادہ سے زیادہ مستحب ہے؛ اس لیے اگر اجازت لینے والے شخص نے اس لڑکی کا باقاعدہ مجلسِ نکاح میں گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھوادیا تو نکاح صحیح اور درست ہوگیا: قال في الہندیة: یصح التوکیل بالنکاح وإن لم یحضرہ الشہود․ (الہندیة: ۱/۲۹۴)
(۲) عاقلہ بالغہ کنواری لڑکی سے اگر غیر ولی اقرب اجازت نکاح طلب کرے تو ثیبہ کی طرح اس کو بھی زبان سے کہنا ضروری ہے،اگر غیروں نے نکاح کی اجازت طلب کی اور لڑکی اس وقت خاموش رہی اس نے سکوت کو اجازت سمجھ کر نکاح پڑھادیا تو اگر اس کے بعد لڑکی بخوشی رخصت ہوکر چلی گئی اور اس نے شوہر کو بخوشی قدرت دیدی وغیرہ تو یہ بھی رضامندی کی دلیل ہوگی اور نکاح درست تصور کیا جائے گا۔
فإن استأذنہا غیر الأب کأجنبي أو ولي بعید فلا عبرة لسکوتہا بل لابد من القول کالثیب البالغة ․․․ أو ما في معناہ من فعل یدل علی الرضا كطلب مہرہا ونفقتہا وتمکینہا من الوطء ودخولہ بہا برضاہا․ ظہیریہ و”قبول التہنئة“ والضحک سرورًا ونحو ذلک․ (الدر المختار: ۴/ ۱۶۴ط زکریا باب الولی)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند