• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 69261

    عنوان: چاند سے متعلق احکامِ شرعیہ کے حوالے سے پہلے چند مسلمہ اصول و ضابطے

    سوال: میرا سوال رمضان یا کوئی اور مہینہ شروع اور ختم کرنے کے لیے چاند دیکھنے کے تعلق سے ہے ۔ کچھ اسلامی تنظیم جیسے حزب التحریروغیرہ کا کہنا ہے کہ ہم کو سعودی عرب یا کسی اور ملک کی رویت پر عمل کرنا چاہیے جہاں پہلی بار کوئی مسلمان چاند دیکھنے کی گواہی دیتا ہے ۔ وہ لوگ ابو داؤد شریف کی درج ذیل احادیث ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں: (1)عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّی رَأَیْتُ الْہِلَالَ قَالَ الْحَسَنُ فِی حَدِیثِہِ یَعْنِی رَمَضَانَ فَقَالَ أَتَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ یَا بِلَالُ أَذِّنْ فِی النَّاسِ فَلْیَصُومُوا غَدًا. (2)عَنْ عِکْرِمَةَ أَنَّہُمْ شَکُّوا فِی ہِلَالِ رَمَضَانَ مَرَّةً فَأَرَادُوا أَنْ لَا یَقُومُوا وَلَا یَصُومُوا فَجَاءَ أَعْرَابِیٌّ مِنْ الْحَرَّةِ فَشَہِدَ أَنَّہُ رَأَی الْہِلَالَ فَأُتِیَ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللَّہِ قَالَ نَعَمْ وَشَہِدَ أَنَّہُ رَأَی الْہِلَالَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَنَادَی فِی النَّاسِ أَنْ یَقُومُوا وَأَنْ یَصُومُوا . (3)عن أبی عمیر بن أنس حدثنی عمومة لی من الأنصار من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : غم علینا ہلال شوال فأصبحنا صیاما فجاء رکب من آخر النہار فشہدوا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہم رأوا الہلال بالأمس فأمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یفطروا من یومہم وأن یخرجوا لعیدہم من الغد. براہ کرم کوئی ایسی حدیث بتائیں جس میں مذکور ہو کہ مسلمانوں کو اپنے صوبہ/شہر کا چاند دیکھ کر رمضان یا کوئی اور مہینہ شروع اور ختم کرنا چاہیے ۔ براہ کرم میرا سوال حل کردیں تاکہ میرا ذہن ان تمام شکوک و شبہات سے صاف ہوسکے ۔ جزاک اللہ خیرا!

    جواب نمبر: 69261

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 786-157/D=10/1437 چاند سے متعلق احکامِ شرعیہ کے حوالے سے پہلے چند مسلمہ اصول و ضابطے اور ان کی مختصر ضروری تشریحات ملاحظہ فرمائیں: (۱) شریعتِ اسلام نے جن معاملات کا مدار چاند ہونے پر رکھا ہے، اُس سے مراد چاند کا افق پر موجود ہونا نہیں؛ بلکہ اُس کا قابلِ رویت ہونا اور عام نگاہوں سے دیکھا جانا ہے۔ چاند سے متعلق شریعت کے مسلمہ ضابطوں میں یہ ضابطہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اگر اس ضابطہ کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے تو چاند سے متعلق کسی بھی حکمِ شرعی میں شک و شبہ کی کوئی نوبت ہی نہ آئے، چاند سے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند ہونا کس کو قرار دیا اور نہ ہونا کس کو کہا، آیا چاند کا صرف افق پر موجود ہونا شرعی احکام میں کافی تسلیم کیا جائے گا یا عام انسانی آنکھوں سے دیکھنے پر اس کے ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا؟ اس مسئلے میں ارشاداتِ نبوی ملاحظہ فرمائیں! حدیث کی سب سے بڑی مستند کتاب جو اعتماد میں قرآن کے بعد دوسرا درجہ رکھتی ہے یعنی: صحیح بخاری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لاتصوموا حتّی تروہُ ولاتفطروا حتّی تروہ فإن غمَّ علیکم فاقدروا لہ․ (بخاری ج۱/۲۵۶) روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہوجائے تو حساب لگا لو (یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو ) ۔ اسی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ الشہر تسعٌ وعشرون لیلة، فلا تصوموا حتّٰی تروہ فان غُمَّ علیکم فاکملوا العدَّةّ ثلاثین․ (صحیح بخاری ج:۱/۲۵۶) مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کا ہے، اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا ) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو (شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو۔ یہ دونوں حدیثیں حدیث کی دوسری سب مستند کتابوں میں بھی موجود ہیں جن پر کسی محدث نے کلام نہیں کیا۔ اور دونوں میں روزہ رکھنے اور عید کرنے کا مدار چاند کی رویت پر رکھا ہے۔ لفظ ”رویت“ عربی زبان کا مشہور لفظ ہے جس کے معنی: کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھنے کے ہیں“۔ اس کے سوا اگر کسی دوسرے معنی میں لیا جائے تو حقیقت نہیں مجاز ہے۔ اس لیے حاصل اس ارشادِ نبوی کا یہ ہوا کہ تمام احکامِ شرعیہ جو چاند کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہیں ان میں چاند کا ہونا یہ ہے کہ عام آنکھوں سے نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ مدارِ احکام چاند کا افق پر وجود نہیں بلکہ رویت ہے۔ اگر چاند افق پر موجود ہو؛ مگر کسی وجہ سے قابلِ رویت نہ ہوتو احکامِ شرعیہ میں اس وجود کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔ حدیث کے اس مفہوم کو اسی حدیث کے آخری جملہ نے اور زیادہ واضح کردیا، جس میں یہ ارشاد ہے کہ اگر چاند تم سے مستور اور چھپا ہوا ہے یعنی: تمہاری آنکھیں اس کو نہ دیکھ سکیں تو پھر تم اس کے مکلف نہیں کہ ریاضی کے حسابات سے چاند کے وجود اور پیدائش معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ یا آلاتِ رصدیہ اور دوربینوں کے ذریعہ اُس کا وجود دیکھو، بلکہ فرمایا: فإن غمَّ علیکم فأکملوا العدةَ ثلاثین․ یعنی: اگر چاند تم پر مستور ہوجائے تو تیس دن پورے کرکے مہینہ ختم سمجھو۔ اس میں لفظ ”غمَّ“ خاص طور سے قابلِ نظر ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی عربی محاورہ کے اعتبار سے بحوالہ ”قاموس و شرح قاموس“ یہ ہیں: غُمَّ الہلالُ علی الناس غماًّ إذا حَالَ دون الہلال غیمٌ رقیق أو غیرہ فلم یُر․ (تاج العروس شرح قاموس) لفظ ”غم الہلال علی الناس“ اُس وقت بولا جاتا ہے جبکہ ہلال کے درمیان کوئی بادل یا دوسری چیز حائل ہو جائے اور چاند دیکھا نہ جاسکے۔ جس سے معلوم ہوا کہ چاند کا وجود خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کرکے یہ حکم دیا ہے؛ کیونکہ مستور ہوجانے کے لیے موجود ہونا لازمی ہے، جو چیز موجود ہی نہیں اس کو معدوم کہا جاتا ہے، محاورات میں اس کو مستور نہیں بولتے اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ چاند کے مستور ہوجانے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں ان میں سے کوئی بھی سبب پیش آئے۔ بہرحال جب نگاہوں سے مستور ہوگیا اور دیکھا نہ جاسکا تو حکم شرعی یہ ہے کہ روزہ وعید وغیرہ میں اُس کا اعتبار نہ کیاجائے گا۔ (۲) قرآن و حدیث میں یہ بات منصوص اور قطعی ہے کہ کوئی مہینہ انتیس دن سے کم اور تیس دن سے زائد نہیں ہوتا، لہذا جن بلاد میں اتنا فاصلہ ہوکہ ایک جگہ کی رویت دوسری جگہ معتبر ماننے کے نتیجے میں مہینے کے دن اٹھائیس رہ جائیں یا اکتیس ہوجائیں، وہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا جائے گا اور جہاں اتنا فاصلہ نہ ہو، وہاں اختلافِ مطالع غیر معتبر ہوگا۔ (۳) ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی۔ ترمذی شریف میں امام ترمذی نے مستقل ایک باب قائم کیا ہے ”بابُ ماجاء لکل أہل بلد روٴیتہم“ یعنی: ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی، پوری حدیث کاترجمہ یہ ہے: ابن عباس کی والدہ ام الفضل نے کریب کو (جو حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ تھے) کسی ضرورت سے حضرت معاویہ کے پاس ملک شام بھیجا، کریب نے ام الفضل کا کام نمٹایا، ابھی و ہ شام ہی میں تھے کہ رمضان کا چاند نظر آیا، چاند جمعہ کی رات میں نظر آیا تھا (اور انہوں نے پہلا روزہ جمعہ کو رکھا تھا) پھر وہ مہینہ کے آخر میں مدینہ آئے ابنِ عباس نے دریافت کیا تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ انہوں نے کہا ہم نے جمعہ کی رات چاند دیکھا تھا، ابنِ عباس نے پوچھا کیا آپ نے خود جمعہ کی رات میں چاند دیکھاتھا (مسلم کی روایت میں ہے نعم، ہاں خود دیکھا تھا) لوگوں نے بھی دیکھا تھا، پس انہوں نے روزہ رکھا اور امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابنِ عباس نے فرمایا: مگر ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا ہے، پس ہم برابر روزے رکھتے رہیں گے تا آنکہ ہم تیس دن پورے کریں یا چاند دیکھ لیں، کریب نے پوچھا، کیا آپ کے لیے حضرت امیر معاویہ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں؟ ابنِ عباس نے فرمایا: نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (تحفة الالمعی) آگے امام ترمذی فرماتے ہیں: والعملُ علی ہذا الحدیث عند أہل العلم انّ لکل أہل بلد روٴیتہم یعنی: تمام اہلِ علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر جگہ کے لیے اسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی۔ (ترمذی شریف ۱/۱۴۸) ترمذی شریف کی دوسری حدیث میں ہے: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطَرون والأضحی یوم تضحون (ترمذی شریف ۱/۱۵۰) یعنی رمضان، عید الفطر اور عید الاضحی جماعت اور سواد اعظم کے ساتھ ہے۔ (*) (۴) عام طور پر روٴیتِ ہلال کے معاملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے شہادت کا معاملہ قرار دیا ہے، البتہ رمضان کے چاند میں خبر کو کافی سمجھا ہے بشرطیکہ خبر دینے والا ثقہ مسلمان ہو، ترمذی، ابوداوٴد، نسائی وغیرہ میں ایک اعرابی اور ابوداوٴد کی روایت میں حضرت ابن عمر کے واقعہ سے ثابت ہے کہ صرف ایک ثقہ مسلمان کی خبر پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شروع کرنے اور روزہ رکھنے کا اعلان فرمادیا، نصابِ شہادت کو ضروری نہیں سمجھا رمضان کے علاوہ دوسرے ہر چاند کی شہادت کے لیے نصابِ شہادت اور اس کی تمام شرائط کو ضروری قرار دیا اور سب فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے، اور سنن دار قطنی میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال عید کے لیے دو آدمیوں سے کم کی شہادت کافی نہیں قرار دی۔ پھر شہادت کی ایک قسم تو یہ ہے کہ آدمی بچشم خود چاند دیکھنے کی گواہی دے، دوسری قسم یہ ہے کہ کسی شہادت پر شہادت دے، یہ شہادة علی الشہادة کہلاتی ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلاں شہر کے قاضی کے سامنے شہادت پیش ہوئی، قاضی نے اس کا اعتبار کرکے شہر میں رمضان یا عید کا اعلان کردیا؛ یہ شہادت علی القضاء کہلاتی ہے۔ حاصل یہ ہوا کہ جب کسی شہر میں عام طور پر چاند نظر نہ آئے تو چاند کے ثبوت کے لیے مذکورہ تین صورتیں شرعاً معتبر ہیں اور دوسرے شہر میں روٴیت ہلال کے ثبوت کے لیے کافی ہیں، (کبھی استفاضے کے ذریعے بھی روٴیت کا ثبوت ہوجاتا ہے، جس کی شرائط کتب فقہ میں مذکور ہیں؛ لیکن استفاضے کے ذریعے چاند کے ثبوت میں بھی یہ بات ضروری ہے کہ مہینے کا ۲۸ یا ۳۱ کا ہونا لازم نہ آئے) البتہ دور دراز ممالک سے اگر مذکورہ بالا طریقوں پر شہادت پہنچتی ہے، تو بعض فقہاء جن کے نزدیک اختلاف مطالع کا اعتبار ہوتا ہے، وہ اس شہادت کو قابل عمل قرار نہیں دیتے اور جن کے نزدیک اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہوتا ہے، اُن کے نزدیک اس شہادت کے معتبر ہونے کے لیے مذکورہ نصوص کی روشنی میں ایک شرط یہ بھی ضروری ہوگی کہ اس شہادت کے قبول کرلینے سے مہینہ اٹھائیس یا اکتیس کا ہونا لازم نہ آئے، اگر ایسا ہوگا تو وہ شہادت معتبر نہ ہوگی۔ ------------------------------------- (*) اس حدیث کی روشنی میں اس صورت کا حکم بھی معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی شخص جدہ سے تیس رمضان کو سحری کھا کر ہندوستان آیا، یہاں انتیسواں روزہ تھا اور شام کو چاند نظر نہیں آیا، اس لیے اگلے دن لوگوں نے تیسواں روزہ رکھا، لیکن جدہ سے آنے والے کا اکتیسواں روزہ ہو جائے گا، پھر بھی اسے اس دن عید منانے کی اجازت نہیں، بلکہ عید اگلے دن مقامی سب مسلمانوں کے ساتھ منائے گا، یہ حکم مذکورہ حدیث سے ہی نکلا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند