• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 58440

    عنوان: کسی گاؤں یا جگہ مے جمعہ کی نماز ہونے ک لئے کیا کیا شریت ہیں ؟

    سوال: اتر پردیش کے زیلا بندہ مے ایک گاؤں ہے جسکا نام گوسپور ہے ، اس گاؤں کی آبادی مشکل سے تکریباً ۰۰۲ - ۰۵۲ لوگوں کی ہوگی، اس گاؤں مے نہ تو کوئی بازار ہے نہ ہی کوئی پنچایت ہے ، ابھی کچھ دنو پہلے می گوسپور گیا تھا تو ادھر مہینے دیکھا کی جمعہ کا وقت ہو گیا ہے ، تو اس گاؤں مے بنی ایک مسجد مے می گیا ، جمعہ کی اذان ہی خطبہ ہوا اسکے بعد جماعت کھدی ہی، فر جمعہ کی ۲ راکٹ نماز ہونے ک بعد دوا ہی اور اسی مسللے مے اسی امام نے دوا ک فارن بعد کھڈے ہوکر سوہر کی نماز با جماعت انہی مختدیو کو پڑھائی ، یہ سب دیکھ ک می حیران ہو گیا ، مجھے اسکے بارے مے قرآن اور حدیث کی روشنی مے بتائے کی کیا یہ جیز ہے ، اور اگر جیز ہے تو کیو ہے ،؟

    جواب نمبر: 58440

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 325-329/Sn=6/1436-U احناف کے یہاں صحتِ جمعہ کے لیے کچھ اہم شرطیں ہیں، مثلاً ایک شرط ”مصریت“ (شہر ہونا) ہے، اور شرعاً ”مصر“ کی مصداق ہروہ جگہ ہے جہاں بازار ہوں، متعدد گلیاں ہوں، روز مرہ کی ضروریات وہاں میسر ہوں، مظلوم کو انصاف دلانے کا کوئی نظام ہو، اور یہ چیزیں عموما ڈھائی تین ہزار کی آبادی میں پائی جاتی ہیں۔ کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں کی حالت مشتبہ ہوتی ہے کہ آیا ان میں شرائط مثلاً ”مصریت“ متحقق ہے یا نہیں، ایسی جگہوں پر اگر لوگ جمعہ پڑھ رہے ہوں تو فقہاء نے خواص کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ خفیةً بہ طور احتیاط ”جمعہ“ کے بعد ”ظہر“ کی بھی نماز پڑھ لیں؛ تاکہ بالیقین ذمہ فارغ ہوجائے۔ آپ نے ”گوسپور“ میں جو کچھ دیکھا غالباً وہ ”احتیاط الظہر“ ہی رہی ہوگی؛ لیکن آپ نے گاوٴں کی جو صورتِ حال اور نماز کی جو کیفیت لکھی کہ ”جمعہ“ کے بعد فوراً اسی ”مصلے“ پر باجماعت ظہر ادا کی گئی تو یہ ایک غیر مشروع اور بالکل فضول چیز ہے؛ اس لیے کہ ”احتیاط الظہر“ کی اجازت اس جگہ کے لیے دی گئی تھی جہاں شرائط جمعہ کا تحقق مشتبہ ہو، اور جس جگہ شرائط کا عدمِ تحقق یقینی ہے، وہاں ظہر کی ادائیگی ہی واجب ہے، جمعہ جائز ہی نہیں ہے، مذکور فی السوال گاوٴں میں بالیقین شرائط جمعہ متحقق نہیں ہیں، تو یہاں اولاً جمعہ پھر ظہر ادا کرنا تو بالکل فضول ہے، یہاں تو ظہر کی ادائیگی ضروری ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جن حضرات نے ”احتیاط الظہر“ کی اجازت دی ہے انھوں نے یہ قید لگائی کی خفیةً پڑھی جائے صرف خواص پڑھیں، ”احتیاط الظہر“ کی باقاعدہ جماعت کرنے کی کسی نے اجازت نہیں دی اور نہ ہرکس وناکس کو اجازت دی گئی ہے۔ یہ تو احیتاط کی جگہ پر بے احتیاطی ہے اور شریعت میں غلو ہے؛ اس لیے ماضی قریب کے اکابر اربابِ افتاء حضرت گنگوہی رحمہ اللہ، حضرت تھانوی رحمہ اللہ وغیرہم نے اس زمانے میں ”احتیاط الظہر“ سے مطلقاً منع فرمایا۔ ثم نقل المقدسي عن الفتح أنہ ینبغي أن یصلي أربعًا ینوي بہا آخر فرض أدرَکٴتُ وقتہ ولم أوٴدّہ إن تردد في کونہ مصرًا أو تعدّدت الجمعة․․․ نعم إن أدّی إلی مفسدة لا تفعل جہارًا والکلام عند عدمہا؛ ولذا قال المقدسي: نحن لا نأمر بذلک أمثال ہذہ العوام؛ بل ندلّ علیہ الخواص ولو بالنسبة إلیہم (رد المحتار علی الدر المختار: ۳/۱۷، باب الجمعة، ط: مکتبہ زکریا دیوبند) اور ”امداد افتاوی“ میں ہے: ․․․ اصل مقصود احتیاط ہے، جب غلو ہوگیا تو اب پڑھنے سے اصل مقصود فوت ہوگیا کہ اس احتیاط سے زیادہ بے احتیاطی ہوگئی؛ اس لیے اب احتیاط نہ پڑھنے میں سمجھی جاوے گی۔ واللہ اعلم (۱/۶۳۷، ط: زکریا) اور دیکھیں فتاوی رشیدیہ (ص: ۴۲۰ تا ۴۲۵) احسن الفتاوی (ص: ۱۵، ج: ۴، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند