عبادات >> جمعہ و عیدین
سوال نمبر: 167783
جواب نمبر: 167783
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 421-332/SN=05/1440
(۱) جمعہ کا وقت زوال کے بعد شروع ہو تا ہے اور وقت سے پہلے کسی بھی نماز کی اذان مفتی بہ قول میں شرعاً جائز نہیں ہے، اگر کسی نے سہوا قبل از وقت اذان دیدی تو وقت داخل ہونے پر دوبارہ اذان دینا ضروری ہوگا ورنہ سنت اذان ادا نہ ہوگی، الغرض اذان جمعہ کسی بھی صورت میں قبل از وقت صحیح نہ ہوگی۔ لایسن لغیرہا کعید ، فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامة خلافاً للثاني فی الفجر ․․․․․ قولہ وقع بعضہ وکذا کلہ بالأولی ولو لم یذکر البعض لتوہم خروجہ فقصد بذکرہ التعمیم لا التخصیص (درمختار مع الشامی: ۲/۵۰، ط: زکریا) نیز دیکھیں: بدائع: ۱/۳۸۱، زکریا) ۔
(۲) اذان دینے کے طریقوں سے معلوم نہیں آپ کی مراد کیا ہے، بہرحال اذان قبلہ رو کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہنی چاہئے، دونوں کانوں کے سراخوں کو انگلیوں سے بند کرلینا؛ تاکہ آواز میں مزید قوت پیدا ہو شرعاً مستحب ہے اگر انگلی کان کے سراخوں میں ڈالنے کے بہ جائے دونوں باتھوں کو دونوں کانوں پر رکھ دے تب بھی استحباب پر عمل ہو جائے گا، جب حی علی الصلاة پر پہنچے تو چہرہ دائیں طرف موڑے اور حی علی الفلاح پر بائیں طرف، یہ بھی مستحب ہے۔ (دیکھیں: درمختار مع الشامی: ۲/۵۳تا ۵۵، ط: زکریا)۔
(۳) اذان تو اس صورت میں بھی ہو جائے گی؛ لیکن محض کان کے ”لو “ کو پکڑ کر (جیسا کہ سزا کے موقع پر ہوتا ہے) اذان دینے سے استحباب پر عمل نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند