• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 153809

    عنوان: کیا یہ بات درست ہے کہ شب جمعہ لیلة القدر سے افضل ہے ؟

    سوال: کیا یہ بات درست ہے کہ شب جمعہ لیلة القدر سے افضل ہے ؟مفصل اور مدلل بیان براہے مہربانی فرمائیں ۔اور کیا دو رکعت مسجد داخل ہوتے وقت جمعہ کے دونوں خطبوں سے افضل ہے ؟ کیا درجہ ہے ان کا؟ مدلل اور مفصل بیان کریں براہے مہربانی۔ کوئی لغزش یا دشواری ہماری جانب سے ہوتو معاف فرمائیں۔

    جواب نمبر: 153809

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1332-1299/N=12/1438

    (۱): جی نہیں! شب قدر، شب جمعہ سے بھی افضل ہے، علما نے صراحت فرمائی ہے کہ شب قدر پورے سال کی تمام راتوں (جس میں جمعہ کی رات بھی داخل ہے) سے افضل ہے۔

    قال في معراج الدرایة: اعلم أن لیلة القدر لیلة فاضلة یستحب طلبھا، وھي أفضل لیالی السنة وکل عمل خیر فیھا یعدل ألف عمل في غیرھا (رد المحتار، کتاب الصوم، آخر باب الاعتکاف، ۳: ۴۴۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ذھب الفقہاء إلی أن لیلة القدر أفضل اللیالي وأن العمل الصالح فیھا خیر من العمل الصالح في ألف شھر لیس فیھا لیلة القدر، قال تعالی:﴿ لیلة القدر خیر من ألف شھر﴾ الخ (الموسوعة الفقہیة، ۳۵: ۳۶۱)۔

    (۲): اگر کوئی شخص جمعہ کے دن مسجد میں خطبہ شروع ہونے کے بعد پہنچے تو خاموشی کے ساتھ خطبہ سننے میں مشغول ہوجائے ، اس وقت تحیة المسجد یا کوئی بھی نفل نماز پڑھنا درست نہیں ، حدیث شریف میں خطبہ کے وقت نماز اور بات چیت سے منع کیا گیا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خطبہ کے وقت تحیة المسجد پڑھ سکتے ہیں یا اس وقت تحیة المسجد کی نماز خطبہ سے بھی افضل ہے، ان کی بات درست نہیں۔

    ( وإذا خرج الإمام فلا صلاة ولا کلام)، وھو قول الإمام؛ لأنہ نص النبي علیہ الصلاة والسلام، ………(حتی یفرغ من صلاتہ) الخ (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، ص ۵۱۸- ۵۲۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

     -------------------------------

    سابقہ فتوی

    جب امام صاحب جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے ہوں تو کیا اس وقت دو رکعت تحیتہ المسجد پڑھنا جائز ہے؟

    براہ کرم، حوالہ کے ساتھ جواب دیں، کیوں کہ آج کل لوگ مفتی صاحب بھروسہ نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ حوالہ چاہتے ہیں۔ جزاک اللہ خیرا

    Fatwa ID: 673-689/N=7/1437

    احناف کے نزدیک جب امام خطبہ دے رہا ہو تو اس وقت تحیة المسجد یا کوئی بھی نفل نماز پڑھنا ناجائز ومنع ہے، مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ خطبہ کے لیے امام کی آمد کے بعد نماز اور گفتگو مکروہ قرار دیتے تھے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ کے حوالے سے فرمایا: اگر قول صحابی کے خلاف کوئی معمول بہ حدیث نہ ہو تو احناف کے نزدیک قول صحابی کی تقلید واجب ہوتی ہے (شامی ۳: ۳۴، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، یہی بات علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے البحر الرائق میں فرمائی ہے (۲: ۲۷۰، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ۔ اور علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے فرمایا: سورہ اعراف کی آیت: ۲۰۴ سے بھی خطبہ کے وقت نفل نماز کی ممانعت ثابت ہوتی ہے (بدائع الصنائع ۲: ۱۹۹، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت) اور مسلم شریف کی روایت میں جو مختصر طور پر دو رکعت پڑھنے کی اجازت آئی ہے، اس کے متعلق علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ نے فرمایا: وہ ممانعت اور تحریم سے پہلے کی روایت ہے (البحر الرائق ۲: ۲۷۱) اور علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ منسوخ ہے، جس کی دلیل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلیک کو دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم فرمایا، اس کے بعد لوگوں کو خطبہ کے دوران نماز پڑھنے سے منع فرمادیا، یا حضرت سلیک رضی اللہ عنہ کی خصوصیت پر محمول ہے (بدائع الصنائع ۲: ۱۹۹) ؛ اس لیے احناف کے نزدیک خطبہ کے وقت تحیة المسجد یا کسی اور نفل نماز کی اجازت نہیں ہے۔

     


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند