• متفرقات >> اسلامی نام

    سوال نمبر: 150232

    عنوان: كیا اِنجیلہ عزیز نام ركھنا صحیح ہے؟

    سوال: میری بہن نے اپنی بیٹی کا نام اِنجیلہ عزیز (INJILA AZIZ) رکھا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟

    جواب نمبر: 150232

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 689-680/N=7/1438

    انجیل در اصل یونانی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: بشارت وخوش خبری ، اس اعتبار سے انجیلہ عزیز نام بہ ظاہر درست ہے ؛ لیکن عام طور پر لفظ انجیل سے ذہن اس آسمانی کتاب کی طرف جاتا ہے جو اللہ تعالی نے حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام پر نازل فرمائی تھی ؛ لیکن ہمارے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو تمام سابقہ آسمانی مذاہب اور کتابیں منسوخ ہوگئیں ، نیز موجودہ انجیل میں عیسائیوں نے بے پناہ تحریفات بھی کررکھی ہیں؛ اس لیے کوئی ایسا نام رکھنا جس میں کسی منسوخ کتاب کی طرف نسبت ہوتی ہو ، مسلمانوں کے لیے مکروہ ہے،ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تورات کا کوئی نسخہ لائے اوراسے پڑھنا شروع کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں تم لوگوں کے پاس واضح اور صاف ستھری شریعت لے کر آیا ہوں (فتح الباری،۱۳: ۴۰۸، مطبوعہ: دار السلام الریاض بحوالہ: مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند بزار وغیرہ)۔ اور اگر عیسائی اس طرح کے نام رکھتے ہیں تو عیسائیوں کی مشابہت کی وجہ یہ نام بالکل جائز ہی نہ ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ آپ کی بہن کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کا نام:”انجیلہ عزیز“ بدل دے اور کوئی اور مناسب نام رکھے، جیسے: فاطمہ عزیز، صبیحہ عزیز، راشدہ عزیز، نجمہ عزیز وغیرہ ۔

    عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم (سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشہرة، ۲:۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱،ط: دار الفکر بیروت، مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني،ص:۳۷۵ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، ”من تشبہ بقوم“أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار الخ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ۸:۲۲۲،ط:دار الکتب العلمیة بیروت)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند