• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 958

    عنوان: علماء دیوبند وسیلہ کے کیوں قائل ہیں؟

    سوال:

    آپ کہتے ہیں کہ وسیلہ سے دعا کرنا ٹھیک ہے اور جو حدیث نابینا شخص والی ہے، اسے آپ پیش کرتے ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے اسے مکروہ تحریمی کہا ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے بھی ایسے وسیلہ کو ناجائز کہا ہے۔ پھر علمائے دیوبند اس کے کیوں قائل ہیں حالاں کہ حدیث میں واضح ہے کہ نابینا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ چاہا اور دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ بھی تھے؟

    جواب نمبر: 958

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 309/د = /د)

     

    امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ نے اسے مکروہ تحریمی کہا ہے۔ کہاں کہا ہے ؟ کتاب کا حوالہ تحریر کریں!

    علمائے دیوبند وسیلہ کو نہ فرض کہتے ہیں نہ واجب، بہتر و جائز کہتے ہیں۔ اس سے دعا کی قبولیت کی امید زیادہ ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جس طرح مقبول بندوں پر ان کی زندگی میں زیادہ ہوتی ہے اسی طرح ان کی وفات کے بعد بھی رحمت خداوندی از بیش ان کی طرف متوجہ رہتی ہے اور اسی طرح مقبول اعمال بھی خواہ اپنے ہوں یا غیر کے اللہ تعالیٰ کی عطا و رحمت سے ہوتے ہیں تو انھیں مقبول اعمال و اشخاص کا وسیلہ کرکے دعا کرنا قبولیت دعا کے لیے امید افزا ہے وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا أي کانوا یستفتحون علی الأوس والخزرج برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبل بعثتہ دیکھئے (روح المعانی، ج۱ ص۲۸۹) سنن ابن ماجہ میں نابینا والی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے صحابی رسول ابن حنیف نے ایک شخص کو وہی دعا تعلیم کی تھی یعنی اللّہم إني أسألک وأتوجہ إلیک بمحمد نبي الرحمة جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے، نیز انجاح الحاجة شرح ابن ماجہ میں اور بھی احادیث ذکر کی گئی ہیں جن سے توسل کا ثبوت ہے۔ توسل خواہ ذات سے ہو یا عمل سے اور ذات باحیات ہو یا وفات یافتہ اور عمل خواہ اپنا ہو یا غیر کا ان سب کی حقیقت اور ان کا مرجع توسل برحمة اللہ تعالیٰ ہے اور توسل بالرحمة کے جواز بلکہ ارجی للقبول ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند