• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 176000

    عنوان: كیا دعا كے ذریعہ نصیب بدل سكتا ہے؟

    سوال: کیا دنیا میں دعا کے ذریعہ نصیب میں لکھا بدل سکتا ہے ہم سب کا عام خیال ہے کہ جو قسمت میں لکھا ہے وہی ملے گا؟

    جواب نمبر: 176000

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:404-67T/sd=5/1441

    قضا (تقدیر کا فیصلہ) جو علم الٰہی کے مطابق ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوتی، اس کو تقدیر مبرم کہتے ہیں اور ایک تقدیر معلق ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کسی کام پر معلق کر رکھا ہے، مثلاً آدمی فلاں نیک کام کرے گا، یا دعا کرے گا، یا اس کے حق میں کوئی دعا کرے گا، وغیرہ تو اس کی وجہ سے اس کی عمر میں اضافہ کردیا جائے گا یا اس سے آنے والی مصیبت کو رفع کردیا جائے گا وغیرہ، یہ تقدیر جس چیز پر معلق ہوتی ہے اس کے ہوجانے کے بعد بدل جاتی ہے اور اسی کے بارے میں مشہور حدیث ہے لا یردّ القضاء إلا الدعاء قضا کو محض دعاء ٹال سکتی ہے، واضح رہنا چاہیے کہ یہ مسئلہ نازک اور مشکل ہے، بس اتنا یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ جل شانہ کو سب کچھ علم ہے اور اسی نے دعا مانگنے کا بھی حکم دیا ہے اور محنت وکوشش کا بھی مکلف بنایا ہے، باقی اس سلسلے میں غور وفکر کرنا دین کے لیے نقصاندہ ہوسکتا ہے۔

    قال الملا علی القاری:قال الطیبی: اعلم أن اللہ تعالی إذا علم أن زیدا یموت سنة خمسمائة استحال أن یموت قبلہا أو بعدہا، فاستحال أن تکون الآجال التی علیہا علم اللہ تزید أو تنقص، فتعین تأویل الزیادة أنہا بالنسبة إلی ملک الموت أو غیرہ ممن وکل بقبض الأرواح، وأمرہ بالقبض بعد آجال محدودة، فإنہ تعالی بعد أن یأمرہ بذلک أو یثبت فی اللوح المحفوظ ینقص منہ أو یزید علی ما سبق علمہ فی کل شیء وہو بمعنی قولہ تعالی: {یمحو اللہ ما یشاء ویثبت وعندہ أم الکتاب} (الرعد)وعلی ما ذکر یحمل قولہ - عز وجل -: (ثم قضی أجلا وأجل مسمی عندہ) (الأنعام) فالإشارة بالأجل الأول إلی ما فی اللوح المحفوظ، وما عند ملک الموت وأعوانہ، وبالأجل الثانی إلی ما فی قولہ تعالی: (وعندہ أم الکتاب) (الرعد: ) وقولہ تعالی: (إذا جاء أجلہم فلا یستأخرون ساعة ولا یستقدمون) (یونس) والحاصل أن القضاء المعلق یتغیر، وأما القضاء المبرم فلا یبدل ولا یغیر۔ (مرقاة المفاتیح مع مشکاة المصابیح، کتاب الدعوات، الفصل الثانی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند