• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 175723

    عنوان: جب تقدیر میں ہر چیز لکھی جاچکی ہے، تو کس چیز پر محنت کریں اور کس چیز کو تقدیر پہ چھوڑ دیں؟

    سوال: جب تقدیر میں ہر چیز لکھی جاچکی ہے، تو کس چیز پر محنت کریں اور کس چیز کو تقدیر پہ چھوڑ دیں؟

    جواب نمبر: 175723

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:438-67/T/L=5/1441

    اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز تقدیر میں لکھ دی ہے ، یہاں تک کہ آدمی نیک بخت ہوگا یا بدبخت یہ بھی لکھا جاچکا ہے ؛ لیکن بندے کا کام یہ نہیں کہ وہ ”تقدیر“ کی بنا پر بیٹھ جائے اور محنت ومشقت نہ کرے ؛ بلکہ بندے کو حکم ہے کہ وہ عمل میں سعی کرے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ”تقدیر“ کے حوالے سے اس طرح کی بات بتلائی تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تو پھر ہم عمل کیوں کریں؟ کیوں ہم تقدیر پر اعتماد کرکے نہ بیٹھ جائیں؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم لوگ عمل اور کام نہ چھوڑو، مسلسل عمل جاری رکھو، ہرایک کے لیے وہ چیز آسان کردی جائے گی جس کے لیے اسے پیدا کیا کیا۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما منکم من نفس إلاّ وقد علم منزلہا من الجنّة والنار، قالوا: یا رسول اللہ فلِمَ نَعْمَل؟ أفلا نتکل؟ قال: لا، اعملوا، فکل میسّر لما خُلِق لہ، ثم قرأ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی إلی قولہ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرَی (مسلم، رقم: ۲۶۴۷، باب کیفیة خلق الآدمی فی بطن أمّہ)؛ لہٰذا آدمی کو ہمت سے کام لیناچاہیے ، تقدیر کے بارے میں زیادہ نہیں سوچناچاہیے ،تقدیر کا مسئلہ انتہائی نازک ہے ، اور مسئلہ تقدیر اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے جس پر اللہ نے کسی فرشتہ یا نبی کو مطلع نہیں کیا، تقدیر کے سلسلہ میں بحث ومباحثہ یا غور وخوض سے آدمی گمراہ ہوسکتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں اس کے تعلق سے کلام کرنے کی ممانعت آئی ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دفعہ کسی گفتگو میں مشغول تھے ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، فرمایا کہ کیا گفتگو کررہے تھے ؟ عرض کیا کہ تقدیر کے مسئلہ میں بات تھی، چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ کیا تم اس کے لیے پیدا کیے گئے ہو یا میں اس کے لیے بھیجا گیا ہوں، ہلاک ہوگئے وہ لوگ جنھوں نے اس میں گفتگو کی۔ (مشکاة: ۲۲) وقال فی المرقاة: قال فی شرح السنة: الإیمان بالقدر فرض لازم وہو أن یعتقد أن اللہ تعالی: خالق أعمال العباد خیرہا وشرہا وکتبہا فی اللوح المحفوظ قبل أن خلقہم والکل بقضاء ہ وقدرہ وإرادتہ ومشیتہ غیر أنہ یرضی الإیمان والطاعة ووعد علیہما الثواب ولا یرضی الکفر والمعصیة وأوعد علیہما العقاب، والقدر سر من أسرار اللہ لم یطلع علیہ ملکا مقربًا ولا نبیًا مرسلاً (مرقاة: ۲۵۶/۱)؛ لہذا آپ بھی اس چکر میں نہ پڑیں اور عمل کرتے رہیں ۔

    نوٹ:ہرچیز اللہ نے آدمی کی قسمت میں لکھ دینے کے باوجود آدمی کو ایک اختیار دیا ہے اسی اختیار پر اس کی گرفت ہوگی یا اس کو اچھا بدلہ ملے گا، یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ اگر آدمی بالکل مجبور پتھر کی طرح ہوتا تو اس سے حساب وکتاب کرنا ہی لاحاصل تھا، اللہ رب العزت نے جب سب کچھ لکھنے کے باوجود انسان کو حساب وکتاب کا مکلف بنایا ہے تو اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انسان بالکل مجبور بھی نہیں ہے ، آدمی کبھی بھی دنیاوی کاموں میں تقدیر کا سہارا لے کر گھر نہیں بیٹھتا۔ مسلمان صرف شرعی اور دینی کاموں میں تقدیر کا سہارا لے کر نماز وغیرہ ترک کرتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند