• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 163812

    عنوان: والدین کے کہنے پر نکاح کے لیے ڈاڑھی کاٹنے یا مونڈنے کا حکم

    سوال: حضرت، میرے لئے زنا سے بچنا بیحد مشکل ہوتا جارہا ہے بحمد اللہ میں نے ابھی تک نہ زنا کیا نہ ہی آگے کروں گا لیکن اس سے بچنا بیحد مشکل لگ رہا ہے۔ نکاح کے لئے رشتے آتو رہے ہیں لیکن میری سنت والی داڑھی دیکھ کر انکار کر دیتے ہیں۔ اور گھر والے یعنی والدین کہتے ہیں کہ جب تک نکاح نہ ہو جائے داڑھی مت رکھو یا چھوٹی کردو، جماعت اسلامی والوں کی طرح۔ میرا سوال ہے کہ کیا ایسی صورت میں زنا سے بچنے کے لئے نکاح ہو جائے اس لئے داڑھی کم کرنے کی کوئی گنجائش نکلتی ہے یا نہیں؟ اور مجھے اب کیا کرنا چاہئے؟ کیونکہ نکاح بھی میرے لیے ایک طرح سے ضروری ہو گیا ہے اور والدین کی نافرمانی بھی نہیں کرنا چاہتا ۔ شریعت کی رو سے راہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 163812

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1191-999/N=11/1439

    ناجائز کام میں والدین کی اطاعت ہرگز جائز نہیں ، نیز نکاح یا ملازمت کے لیے بھی داڑھی مونڈنا یا ایک مشت سے کم پر کاٹنا حرام ہے؛ اس لیے آپ ہرگز اپنی ڈاڑھی نہ مونڈیں اور نہ ایک مشت پر کم پر کاٹیں، داڑھی کی وجہ سے رشتہ کی پریشانی اللہ تعالی کی طرف سے ایک آزمائش ہے، اس میں آپ صبر وہمت سے کام لیں۔ اور جب تک نکاح نہ ہو اور زنا کا اندیشہ ہو تو روزہ کی کثرت کریں اور نگاہوں کی حفاظت کے ساتھ شہوانی خیالات وغیرہ سے بھی بھر پور پرہیز کریں۔ اللہ تعالی آپ کے لیے جلد از جلد مناسب رشتہ کا نظم فرمائیں۔

    فلذلک - فلأجل أن الأمر للوجوب -کان حلق اللحیة محرما عند أیمة المسلمین المجتھدین: أبي حنیفة ومالک والشافعي وأحمد وغیرھم، وھاک بعض نصوص المذاھب فیھا؛ قال في کتاب الصوم من الدر المختار:……وأما الأخذ منھا وھي دون ذلک- أي:دون القبضة - کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الأعاجم اھ وقال فی البحر الرائق:……وأما الأخذ منھا وھي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة والمخنثة من الرجال فلم یبحہ أحد کذا في فتح القدیر اھ ونحوہ في شرح الزیلعي علی الکنز وحاشیة الشرنبلالي علی الدرروغیرھما من کتب السادة الحنفیة (المنھل العذب المورود،کتاب الطھارة، حکم اللحیة ۱:۱۸۶،ط: موٴسسة التاریخ العربي بیروت لبنان)، لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق (رواہ أحمد والحاکم عن عمران والحکم بن عمرو الغفاري وقال الہیثمي: رجال أحمد رجال الصحیح کذا في فیض القدیر ۶:۴۳۲)، لا طاعة في معصیة ،إنما الطاعة فی المعروف متفق علیہ ( مشکاة المصابیح،،کتاب الإمارة والقضاء، الفصل الأول ص ۳۱۹،ط المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند