• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 156329

    عنوان: اولاد کے لیے ولی کے وسیلے سے اللہ سے دعا مانگنا؟

    سوال: کیا میں اولاد کے لیے ولی اللہ کے وسیلے سے اللہ سے دعا مانگ سکتی ہوں؟میری کوئی اولاد نہیں ہے۔ کیا میں حمل کے لیے تعویذ پہن سکتی ہوں؟ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 156329

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:208-21T/N=3/1439

     (۱): جی ہاں! آپ اولاد کے لیے اللہ تعالی سے کسی نبی یا ولی کے وسیلہ سے دعا کرسکتی ہیں، مثلاً آپ یوں کہیں کہ اے اللہ! حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ طفیل میں مجھے اولاد کی نعمت سرفراز فرما! کیوں کہ اہل السنة والجماعة کے نزدیک دعا میں کسی نبی یا ولی یا نیک عمل کا وسیلہ اختیار کرنا جائز ومشروع ہے؛ بلکہ اس طرح خلوص کے ساتھ جو دعا کی جائے ، اس کی قبولیت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے؛ البتہ قبولیت دعا کے لیے وسیلہ کو لازم وضروری نہ سمجھا جائے؛ کیوں کہ اللہ تعالی وسیلہ کے بغیر بھی دعا قبول فرماتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم کی مختلف آیات کے اطلاق سے معلوم ہوتا ہے۔

    أخرج الترمذي في سننہ (أحادیث شتی من أبواب الدعوات باب:۷) عن عثمان بن حنیفأن رجلا ضریر البصر أتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،فقال:ادع اللہ أن یعافینی، قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فہو خیر لک،قال: فادعہ،قال: فأمرہ أن یتوضأ فیحسن وضوء ہ ویدعو بہذا الدعاء، اللہم إنی أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبی الرحمة إنی توجہت بک إلی ربی فی حاجتی ہذہ لتقضی لی،اللہم فشفعہ فيّ اھ،وقال عبد الرحمن المبارکفوری في تحفة الأحوذي (۱۰:۳۴) تنبیہ: قال الشیخ عبدالغنی في إنجاح الحاجة: ذکر شیخنا عابد السندي في رسالتہ: والحدیث یدل علی جواز التوسل والاستشفاع بذاتہ المکرم في حیاتہ، وأما بعد مماتہ فقد روی الطبراني فيالکبیر عن عثمان بن حنیف أن رجلا کان یختلف إلی عثمان بن عفانفي حاجة لہ فذکر الحدیث قال: وقد کتب شیخنا المذکور رسالة مستقلة فیہا التفصیل من أراد فلیرجع إلیہا انتہی، وقال الشوکاني في تحفة الذاکرین: وفي الحدیث دلیل علی جواز التوسل برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إلی اللہ عز وجل مع اعتقاد أن الفاعل ہو اللہ سبحانہ وتعالی وأنہ المعطي المانع ما شاء کان ومالم یشأ لم یکن انتہی اھ، وقال ابن عابدین في رد المحتار في باب الاستبراء من کتاب الحظر والإباحة (۹: ۵۶۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)نقلاً عن السبکي:یحسن التوسل بالنبي - صلی اللہ تعالی علیہ وسلم -إلی ربہ، ولم ینکرہ أحد من السلف ولا الخلف إلا ابن تیمیة فابتدع ما لم یقلہ عالم قبلہ اھ

    (۲):جی ہاں! آپ استقرار حمل کے لیے تعویذ پہن سکتی ہیں، جائز ہے؛ البتہ تعویذ میں کوئی خلاف شرع بات نہ لکھی ہو، یعنی: کسی دین دار وقابل اعتماد عامل سے تعویذ لیا جائے اور تعویذ کو محض سبب وذریعہ تصور کیا جائے، موٴثر بالذات نہ سمجھا جائے۔

    عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ باللّٰہ بکلمات اللّٰہ التامة من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون،وکان عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ (السنن لأبي داود،کتاب الطب، باب کیف الرقی، ص: ۵۴۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وقد جاء في بعض الأحادیث جواز الرقي، وفي بعضہا النہي عنہا، فمن الجواز قولہ علیہ السلام: استرقوا لہا فإن بہا النظرة أي أطلبوا لہا من یرقیہا ومن النہي قولہ لا یسترقون ولا یکتوون، والأحادیث في القسمین کثیرة، ووجہ الجمع بینہما أن الرقي یکرہ منہما ما کان بغیر اللسان العربي وبغیر أسماء اللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ وکلامہ في کتبہ المنزلة وأن یعتقد أن الرقیة نافعة لا محالة فیتکل علیہا وإیاہا (عمدة القاريِ ۲۱: ۲۶۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فیہا القرآن، أو أسماء اللّٰہ تعالیٰ، … وإنما تکرہ العوذة إذا کانت بغیر لسان العرب، ولا یدري ما ہو، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذٰلک، وأما ما کان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس بہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس، ۹: ۵۲۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند نقلاً عن المجتبی)، وأما ما کان من الآیات القرآنیة والأسماء والصفات الربانیة والدعوات المأثورة النبویة فلا بأس؛ بل یستحب، سواء کان تعویذًا أو رقیةً أو نشرةً، وأما علی لغة العبرانیة ونحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا (مرقاة المفاتیح، ۸: ۳۶۰، ۳۶۱، ط: المکتبة الإمدادیة ، ملتان ، باکستان)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند