• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 153789

    عنوان: خودکشی پر عذاب کیوں؟

    سوال: ہر انسان کی تقدیر اللہ تعالی نے خود لکھی ہے۔ جو قسمت میں لکھا ہوگا وہی ہوگا، تو جب کوئی انسان خودکشی کرتا ہے تو اس کو آخرت میں عذاب کیوں ملتا ہے؟ اگرچہ قسمت میں اس قسم کی ہی موت لکھی ہو۔ جواب جلد از جلد دیں، کرم ہوگا۔

    جواب نمبر: 153789

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1403-1331/L=11/1438

     

     ہرچیز اللہ نے آدمی کی قسمت میں لکھ دینے کے باوجود آدمی کو ایک اختیار دیا ہے اسی اختیار پر اس کی گرفت ہوگی یا اس کو اچھا بدلہ ملے گا، اگر آدمی بالکل مجبور پتھر کی طرح ہوتا تو اس سے حساب وکتاب کرنا ہی لاحاصل تھا، اللہ رب العزت نے سب کچھ لکھنے کے باوجود انسان کو حساب وکتاب کا مکلف بنایا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انسان بالکل مجبور نہیں ہے؛اس لیے اگر آدمی خودکشی کرتا ہے تو وہ اپنے اختیار سے کرتا ہے اسی وجہ سے قیامت میں اس سے باز پرس ہوگی ،آدمی کو تقدیر کے چکر میں پڑ کر عمل ترک نہ کرنا چاہیے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے جب تقدیر کی حقیقت بیان فرمائی تو صحابہ نے فرمایا: کیا ہم عمل کرنا چھوڑدیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں تم عمل کرتے رہو، ہرآدمی کے لیے اس چیز کو آسان کیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیاہے،واضح رہے کہ مسئلہ تقدیر نص قطعی سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا فرض ہے، تقدیر اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے جس پر اللہ نے کسی فرشتہ یا نبی کو مطلع نہیں کیا،تقدیر کے بارے میں زیادہ گہرائی اور غور و فکر کی ممانعت آئی ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم ایک دفعہ کسی گفتگو میں مشغول تھے، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، فرمایا کہ کیا گفتگو کررہے تھے؟ عرض کیا کہ تقدیر کے مسئلہ میں بات تھی، چہرہٴ مبارک غصہ سے سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ کیا تم اس کے لیے پیدا کیے گئے ہو یا میں اس کے لیے بھیجا گیا ہوں، ہلاک ہوگئے وہ لوگ جنھوں نے اس میں گفتگو کی۔ (مشکاة: ۲۲)

    ان القدر: وہو مایقع من العبد المقدر في الأزل من خیرہ و شرہ و حلوہ و مرہ کا ئن منہ سبحانہ وتعالی بخلقہ و ارادتہ، ما شاء کان، وما لا، فلا۔ ( شرح الفقہ الأکبر،ص:۷۵، بحث في القضاء والقدر، وأنہما من صفات الأزلیة، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) وأصل القدر سر اللّٰہ تعالی في خلقہ، لم یطلع علی ذلک ملک مقرب، ولا نبي مرسل، والتعمق والنظر في ذلک ذریعة الخذلان، وسلم الحرمان، ودرجة الطغیان، فالحذرکل الحذر من ذلک نظراًو فکراً ووسوسة، فان اللّٰہ تعالی طوی علم القدر عن أنامہ ونہاہم أن مرامہ۔ (شرح العقیدة الطحاویة لابن أبي العز الدمشقي، ص: ۱۸۸، بیروت )

    و قال في المرقاة: قال في شرح السنة: الإیمان بالقدر فرض لازم وہو أن یعتقد أن اللہ تعالی: خالق أعمال العباد خیرہا وشرہا وکتبہا في اللوح المحفوظ قبل أن خلقہم والکل بقضاء ہ وقدرہ وإرادتہ ومشیتہ غیر أنہ یرضی الإیمان والطاعة ووعد علیہما الثواب ولا یرضی الکفر والمعصیة وأوعد علیہما العقاب، والقدر سر من أسرار اللہ لم یطلع علیہ ملکا مقربًا ولا نبیًا مرسلاً (مرقاة: ۱/۲۵۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند