• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 152582

    عنوان: كیا وراثت میں حصہ بخش دینے اور دست بردار ہوجانے سے حق ختم ہوجاتا ہے؟

    سوال: حضرت! ہم ۵/ بہنیں اور ۳/ بھائی اور والدہ حیات ہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے ڈیڑھ مہینہ بعد ہم بہنوں کو دعوت پر بلایا اور ایک مولانا صاحب بھی آئے ہوئے تھے اور ہمارے ۳/ چچا بھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہم بہنوں کا اتنا اتنا حصہ شرعاً بنتا ہے نقدی کے حساب سے جو کہ ان کے پاس نہیں، اگر ہم بہنیں اپنا حصہ مانگتی ہیں تو وہ ہمیں ہر چیز کو ترکہ میں سے دیں گے جیسے کہ بکری کی ٹانگ موٹر کا ٹائر اور گائے کی دُم وغیرہ، اور ہمیں یہ بھی کہا گیا کہ پٹھانوں میں بہن کبھی حصہ نہیں لے کر جاتی، اور یہ بھی کہاکہ جو بھی فیصلہ کرنا ہے ابھی کرو ورنہ نہیں، پھر مولانا صاحب نے کہا، نہیں! کل صبح ۹/ بجے تک وقت دے دو اس وقت رات کے ۱۱/ بج رہے تھے، چونکہ ہمارا ایک چھوٹا بھائی تھا جو دارالعلوم میں پڑھتا ہے، ہم نے دباوٴ اور مجبوری میں ہاں بول دیا کہ ہم نے بخش دیا مگر دل سے نہیں، پھر بعد میں پتا چلا کہ اس حساب میں بینک بیلنس اور ایک مکان اور کچھ دوکانیں ڈالی ہی نہیں تھی، اب ہم بہنیں اپنا حصہ چاہتی ہیں مگر وہ لوگ نہیں مان رہے ہیں۔ کیا ہمارا حق شریعت کے حساب سے بنتا ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 152582

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1015-975/sd=10/1438

    وراثت میں حصہ بخش دینے اور دست بردار ہوجانے سے حق ختم نہیں ہوجاتا ہے ،لہذا صورت مسئولہ میں اگرچہ آپ بہنوں نے بھائیوں سے حصہ بخشنے کی بات کہی ہو، اس کے باوجود اگر آپ بہنیں اپنا شرعی حصہ لینا چاہیں، تو لے سکتی ہیں، حصہ بخشنے سے حق ختم نہیں ہوا، بھائیوں پر لازم اور ضروری ہے کہ وہ بہنوں کا شرعی حصہ اداء کریں۔ لو قَالَ الْوَارِثُ: تَرَکْتُ حَقِّی لَمْ یَبْطُلْ حَقُّہُ؛ إذْ الْمِلْکُ لَا یَبْطُلُ بِالتَّرْکِ ۔ ( الاشباہ والنظائر : ۲۷۲/۱، الفن الثالث، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند