عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 148331
جواب نمبر: 148331
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 56-265/Sn=4/1438
آپ نے استفتاء کے ساتھ دارالعلوم دیوبند نیز سبیل الرشاد بنگلور کے فتاوی بھی استفتاء کے ساتھ ملحق کرنے کی بات لکھی ہے؛ بلکن ہمیں وہ فتاوی نہیں ملے، صرف جامعہ قاسمیہ مراد آباد کا فتوی ہمیں ملا، اگر تمام فتاوی ہمارے سامنے ہوتے تو تفصیل سے غور کیا جاسکتا، اس وقت اجمالاً صرف اتنا عرض ہے کہ ”موئے مبارک“ کے حوالے سے حکم شرعی وہی ہے جو جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد کے فتوے (مجریہ ۵/۵/ ۱۴۳۷ھ) میں ”کفایت المفتی اور اصلاح الرسوم وغیرہ کے حوالے سے لکھا گیا ہے، مزید یہ عرض ہے کہ جو چیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو؛ لیکن اس کی کوئی قابل اعتماد سند نہ ہو تو محض پچاس سو سال سے عوام کے درمیان شہرت ہونے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کا یقین کرنا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی تبرک نبوی کے طور پر اس کے ساتھ معاملہ کرنا درست ہوگا؛ کیوں کہ تواتر وتوارث کے لیے ضروری ہے کہ اس کا سلسلہ خیرالقرون کے زمانہ تک پہنچے، اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول ”مارآہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن“ سے عوام کے اس عمل واعتقاد کے جواز؛ بلکہ استحسان پر استدلال بھی صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ شارح مشکات نے صراحت کی ہے کہ ”المسلمون“ سے مراد ”علماء اور اتقیاء“ ہے یعنی عوام کے استحسان کا کوئی اعتبار نہیں ہے، نیز جس چیز کا تعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے ہو جس پر چودہ سو سال سے زائدہ عرصہ گزرچکا ہو، اس کے ثبوت کے لیے پچاس سو سال سے کچھ لوگوں کے درمیان شہرت اور ان کا استحسان کیسے ”مجوّّز“ بن سکتا ہے۔ مرقات میں ہے: ․․․․ قال ابن مسعود - رضی اللہ عنہ: ما رآہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن، والمراد بالمسلمین زبدتہم وعمدتہم، وہم العلماء بالکتاب والسنة، الأتقیاء عن الحرام والشبہة (مرقاة المفاتیح باب التنظیف والتبکیر، کتاب الجمعة، ۳/۱۰۳۴، ط: دار الفکر) نیز امداد الفتاوی میں اس طرح کے ”موئے مبارک“ کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں حضرت اقدس تھانوی رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا: ”اگر اس کے موئے مبارک ہونے کی کچھ سند نہیں ہے تو اس کی تعظیم وتوقیر لاحاصل ہے اور اگر کوئی سند ہے تو اس کی تعظیم کرنے میں اجر وثواب ہے بہ شرطے کہ حد شرع سے نہ بڑھ جائے الخ۔ (امداد الفتاوی: ۴/ ۵۶، ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند