عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 146889
جواب نمبر: 146889
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 272-249/B=3/1438
کتب سماویہ کو کلام اللہ کہنا درست نہیں، قرآن پاک میں انہیں کہیں کلام اللہ نہیں کہا گیا، احادیث میں بھی ان کو کلا م اللہ نہیں کہا گیا، کتب سماویہ کی عبارت صرف مضمون من جانب اللہ ہے، ان کی حیثیت احادیث قدسیہ کی طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جل شانہ کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے وہ بعینہ اللہ کا کلام نہیں ہے، چونکہ مضمون اللہ کی طرف ہے اس لیے اسے کتاب اللہ کہا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ کی حفاظت کا اعلان فرمایا ہے جبکہ کتب سماویہ کی حفاظت کا اعلان نہیں فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک کلام اللہ میں ایک زیر و زبر کا فرق نہیں ہوا ہر قسم کے تغیر اور تبدیلی سے پاک ہے جبکہ کتب سماویہ پر اس قدر تغیرات ہوئے ہیں کہ آج کل وہ اپنے اصلی روپ میں باقی نہ رہیں بلکہ سب منحرف اور ناپید ہوئیں۔
(۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ کلام اللہ معجز ہوتا ہے جبکہ کتب سماویہ کی عبارتیں معجز نہیں، کلام اللہ کے لیے چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر تمہیں اس کے اللہ کا کلام ہونے میں شک ہے تو تم ایک سورہ اس جیسی بناکر لے آوٴ حالانکہ کتب سماویہ کے بارے میں چیلنج نہیں ہے۔
(۴) اللہ کا کلام ازلی وابدی ہوتا ہے ا س کے لیے فنا نہیں ہے مگر مشاہدہ ہے کہ توریت کی اصل عبارت فنا ہوگئی، یہ کھلی ہوئی دلیل ہے کہ اسے کلام اللہ کہنا صحیح نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند