• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 1059

    عنوان: مجھے رسول اللہ کے عالم الغیب ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ دلیل چاہیے

    سوال:

     (۱) میں ایک حدیث کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ صحیح ہے یا نہیں۔ اصل میں مجھے رسول اللہ کے عالم الغیب ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ دلیل چاہیے تھی، چناں چہ جب میں نے تلاش کیا تو یہ حدیث نظر سے گذری۔ اب میں اس کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی رسول اللہ کو علم غیب تھا یا نہیں؟ براہ کرم، حدیث یا قرآن کی روشنی میں جواب دیں اور حوالہ بھی لکھ دیں تو بہتر ہے۔ میں نے کسی سے قرآن کی ایک آیت کا مفہوم سنا تھاجو کچھ اس طرح تھا: اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ کیا یہ صحیح آیت ہے؟باحوالہ جواب دیں۔ شیخ عبد اللہ غمری دو حدیثیں نقل کرتے ہیں: (۱لف) عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :اوتیت مفاتح کل شیٴ الا الخمس، ان اللہ عندہ علم الساعة الآیة۔رواہ احمد والطبرانی باسناد صحیح (ب) وفی الصحیحین عن ابی حذیفة قال: قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماترک فیہ شیئاً الی قیام الساعة الا ذکرہ، حفظہ من حفظہ و نسیہ من نسیہ، وانہ لیکون منہ الشیٴ قد کنت نسیتہ فاراہ اذکرہ کما یذکرالرجل وجہ الرجل اذا غاب عنہ ثم اذا راہ یعرفہ۔

    (۲) اسی طرح کا ایک اور مسئلہ ہے حاضرو ناظر کا۔ اس کو بھی اگر آپ قرآن یا حدیث سے ثابت کریں تو اپنا ایمان مضبوط کرسکتا ہوں اور بقیہ کو بھی صحیح راہ دکھا سکتا ہوں۔

    (۳) نیز، کیا ایصال ثواب جائز ہے؟ کوئی حدیث یا قرآنی آیت دلیل کے طور پر بتائیں تو مہربانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 1059

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 360/د = 362/د)

     

    آیت کریمہ جس کا مفہوم آپ نے لکھا ہے وہ سورہٴ لقمان کی صفت کے ساتھ مختص ہونا ثابت ہے۔ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ الآیة (سورہٴ نمل، آیت: 65) نیز قُلْ لآَّ اَقُولُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ الآیة (سورٴ انعام، آیت:۵۰) ان آیات کی تفسیر معارف القرآن مولفہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ میں مطالعہ فرمالیں۔ عالم الغیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے کہ کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اورولیوں میں سے جس کو چاہتے ہیں غیب کی باتوں میں سے آگاہ فرمادیتے ہیں، مگر کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم کسی کو عطا نہیں فرمایا، آپ نو سال میں جو دو حدیثیں ذکر کی ہیں، پہلی حدیث میں بھی علوم کے عطا کئے جانے کا ذکر ہے اور دوسری حدیث میں قیامت تک پیش آنے والے واقعات اور فتن کا ذکر ہے لہٰذا یہ سمجھنا درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار علوم اللہ نے عطا فرمائے تھے ان میں خاص مقدار مغیباب کی بھی ہیں، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھنا کہ کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا ہے، درست نہیں ہے۔

     

    (۲) حاضر و ناظر کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی ہستی جس کا وجود کسی خاص جگہ میں نہیں بلکہ اس کا وجود بیک وقت ساری کائنات کو محیط ہے اور کائنات کے ایک چیز کی حالت اول سے آخر تک اس کی نظر میں ہے۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ حاضر و ناظر کا مذکورہ مفہوم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر صادق آتا ہے۔ اور حاضر و ناظر ہونا صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس کو کسی دوسری ہستی کے لیے ثابت کرنا غلط ہے، حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرجگہ موجود ہیں اور کائنات کی ایک ایک چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ہے۔ درست نہیں ہے۔ یہ بات قرآن پاک کی آیات سے بالکل واضح طور پر ثابت ہے۔ (سورہٴ توبہ، آیت: ۱۰۱،سورہٴ آل عمران، آیت:44)

     

    (۳) انسان اپنے نیک اعمال خواہ مالی ہوں یا بدنی ان کا ثواب مردوں کو پہنچاسکتا ہے، جائز ہے۔ کتب فقہ اور احادیث نبویہ نیز قرآن پاک سے ثابت ہے۔ صدقات جاریہ میں سے ولد صالح یدعو لہ کا ذکر حدیث میں ہے اور رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا قرآن پاک میں مذکور ہے، جس سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی دعا اپنے لیے والدین کے لیے نفع بخش ہوتی ہے اور حضرت سعد -رضی اللہ عنہ- کا اپنے باغ کو صدقہ کرنا والدہ کے ایصالِ ثواب کے لیے حدیث میں مذکور ہے۔ نیز حضرت علی -رضی اللہ عنہ- سے مروی ہے کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہوکر گیارہ مرتبہ سورہٴ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخشے تو مردوں کی گنتی کے مطابق اس کو بھی اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اور بھی بہت سی حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے، طحطاوی علی مراقی الفلاح، ص:622)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند