• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 463

    عنوان:

    سود کی تعریف کیا ہے؟ اور کیا موجودہ دورمیں سود کے بغیر کاروبارممکن ہے؟

    سوال:

    (1)    سود کی تعریف کیا ہے؟

    (2)    اور کیا موجودہ دور میں سود کے بغیر کاروبار ممکن ہے؟

    (3)    نیز اسلام آنے کے بعد کتنے عرصے تک بلا سودی نظام چلتا رہا؟

    (4)    اور سب سے پہلے کس اسلامی مملکت یا کس اسلامی حکمراں نے غیر سودی نظام ترک کیا اور کیوں؟

    جواب نمبر: 463

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 95/د=۹۳/د)

     

    (1)  سود کی تعریف ففہائے کرام یہ کرتے ہیں: کیلی یا وزنی چیز کے تبادلہ میں دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔

     

    (2)  ضرور ممکن ہے خواہ کچھ دشواری اور تنگی کے ساتھ بشرطیکہ مال و دولت کی حرص زائد اور تکاثر بے جا سے بچاجائے اور جو اقل قلیل جز سود کا پھر بھی باوجود احتیاط و احتراز کے کاروبار میں شامل ہوجائے اس سے توبہ و استغفار کرتا رہے۔ حدیث میں پیشین گوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقنا لوگوپر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ کوئی بھی بغیر سود کھائے نہ بچ سکے گا۔ اور اگر کھایا نہیں تو کم ازکم اس کا دھواں یا گرد تو پہنچ ہی جائے گا۔ (مشکوٰة)

    حاصل یہ ہے کہ حرام کو حرام سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش کرنا فرض ہے اور مجبوری میں جو خبر شامل ہوجائے اس سے استغناء ضروری ہے۔ اور مجبوری کی حالت کو اللہ بہتر جانتا ہے واللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَo (عنکبوت: 45)

     

    (3)  اسلام سے قبل جاہلیت میں سودی لین دین کا رواج تھا۔ جب قرآن میں اس کی حرمت نازل ہوئی تو مسلمان پورے طور پر اس سے کنارہ کش ہوگئے اورایک طویل زمانہ تک اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومتیں اس سے محفوظ رہیں۔

     

    (4)  سودی نظام کو عالمگیر پیمانہ پر سسٹم بناکر پیش کرنا اور حکومتوں حتی کی افراد کا اس میں ملوث ہوجانا اللہ تعالیٰ کی مبغوض جماعت یہودیوں کی کرشمہ سازی ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے اکَّالون للسحت فرمایا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند