• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 3597

    عنوان:

    میں دلی میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتاہوں، میری تنخواہ ۱۵۰۰۰/ روپئے ماہانہ ہیں اور دیگر ذرائع سے ۵۰۰۰/روپئے کی آمدنی ہوتی ہے۔ میں ایک کرایا کے مکان میں اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہاہوں جس کا کرایا ۵۰۰۰/ روپئے ہیں اور بجلی کا بل الگ۔ پہلے میں جس مکان میں رہ رہاتھا اس کے مالک نے اپنے ایک رشتہ دار کی وجہ سے خالی کرایالیاجبکہ مجھے امید تھی کہ میں اس میں کم از کم تین سال تک رہوں گا۔ یہ مکان خالی کرنے کے بعد میں نے کرایاپر ایک دوسرا مکان لیااور پھر اسی دن اسے بدل کر دوسرا مکان لے لیا۔ مکان میں اس کی تمام ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے وہ خاصہ برہم ہے، اس نئے فلیٹ میں نہ تو مناسب روشن دان ہے اورنہ دھوپ آتی ہے، مختصر یہ کہ باربار گھر بدلنا ایک دشوار کن مسئلہ ہے۔ دلی میں اپنا فلیٹ خرید نے کے لیے میرے پاس زیادہ روپئے نہیں ہیں۔ میرے ایک دوست کا مشورہ ہے کہ بینک سے لون لے کر فلیٹ خرید لوں اور کرایا کے بجائے قسط اداکرتا رہاہوں۔ والد صاحب بھی فلیٹ خرید نے کے مقصد سے روپئے دینے پر راضی نہیں ہیں۔ والد صاحب کے پاس جائداد ہیں مگر نقد پیسے نہیں ہیں۔ جائداد فروخت کرنیپر والد صاحب تیار نہیں ہیں۔ہم لوگ والد صاحب کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ براہ کرم، بتائیں کہ ان حالات کیامیں بینک سے ہوم لون (گھر کے بنانے کے لیے سودی قرض) یا ذاتی لون لے سکتاہوں یانہیں؟

    سوال:

    میں دلی میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتاہوں، میری تنخواہ ۱۵۰۰۰/ روپئے ماہانہ ہیں اور دیگر ذرائع سے ۵۰۰۰/روپئے کی آمدنی ہوتی ہے۔ میں ایک کرایا کے مکان میں اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہاہوں جس کا کرایا ۵۰۰۰/ روپئے ہیں اور بجلی کا بل الگ۔ پہلے میں جس مکان میں رہ رہاتھا اس کے مالک نے اپنے ایک رشتہ دار کی وجہ سے خالی کرایالیاجبکہ مجھے امید تھی کہ میں اس میں کم از کم تین سال تک رہوں گا۔ یہ مکان خالی کرنے کے بعد میں نے کرایاپر ایک دوسرا مکان لیااور پھر اسی دن اسے بدل کر دوسرا مکان لے لیا۔ مکان میں اس کی تمام ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے وہ خاصہ برہم ہے، اس نئے فلیٹ میں نہ تو مناسب روشن دان ہے اورنہ دھوپ آتی ہے، مختصر یہ کہ باربار گھر بدلنا ایک دشوار کن مسئلہ ہے۔ دلی میں اپنا فلیٹ خرید نے کے لیے میرے پاس زیادہ روپئے نہیں ہیں۔ میرے ایک دوست کا مشورہ ہے کہ بینک سے لون لے کر فلیٹ خرید لوں اور کرایا کے بجائے قسط اداکرتا رہاہوں۔ والد صاحب بھی فلیٹ خرید نے کے مقصد سے روپئے دینے پر راضی نہیں ہیں۔ والد صاحب کے پاس جائداد ہیں مگر نقد پیسے نہیں ہیں۔ جائداد فروخت کرنیپر والد صاحب تیار نہیں ہیں۔ہم لوگ والد صاحب کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ براہ کرم، بتائیں کہ ان حالات کیامیں بینک سے ہوم لون (گھر کے بنانے کے لیے سودی قرض) یا ذاتی لون لے سکتاہوں یانہیں؟

    جواب نمبر: 3597

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 288/ ل= 291/ ل

     

    سود لینے دینے کے سلسلے میں قرآن واحادیث میں بہت سخت وعید آئی ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، سود لینے والے سود دینے والے، سود لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر (مشکاة: ج۱ ص۲۴۴) اس وجہ سے سودی قرض لینا بنص قطعی حرام ہے۔ ما شاء اللہ آپ کی آمدنی کثیر ہے، اگر کچھ سالوں تک آپ اپنے اخراجات میں کفایت سے کام لیں تو ایک خطیر رقم بطور پونجی کے آپ کے پاس بچ سکتی ہے، اس کے بعد مزید کچھ ضرورت پڑی تو دوست و احباب سے غیرسودی قرض لے کر آپ مکان خرید سکتے ہیں۔ بہرحال اگر اس سے بھی مسئلہ کا حل نہ ہوسکے تو بینک کے توسط سے مکان اس طرح خریدا جاسکتا ہے کہ اولاً بینک اس مکان کو خریدے او رجس قدر اس کو سود لینا ہے، اس کو اصل قیمت میں شامل کرکے آپ سے بیچ دیے، اور آپ قسطوں میں اس رقم کو ادا کردیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند