• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 169916

    عنوان: ایف ڈی وغیرہ میں جو انٹرسٹ ملتا ہے، کیا وہ پیسوں کی ویلیو گھٹنے کا عوض مانا جاسکتا ہے؟

    سوال: کاغذ کے نوٹ چلتے ہیں کرنسی کے طورپر اور انفلیشن (مہنگائی بڑھنا یا پیسے کی ویلو گھٹنا)ہمیشہ ہمارے پیسے کی ویلو کو کھاجاتاہے تو کیا یہ حرام ہوگا جب کوئی انسان اپنے پیسے کی ویلو کو کچھ مینٹین کرنے کے لیے انویسٹ کرتاہے پی پی ایف، ان ایس سی یا ایف ڈی میں؟ ہم لوگ گولڈ اسٹنڈرڈ پر عمل نہیں کرتے ہیں ، اگر کرتے ہوتے تو انفلیشن نہیں بڑھتا۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 169916

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:781-830/N=12/1440

    ایف ڈی وغیرہ میں جو انٹرسٹ ملتا ہے، وہ پیسوں کی ویلیو گھٹنے کا عوض نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ سود کے اصول کے مطابق سود ہی ہوتا ہے؛ اسی لیے اس میں پیسوں کی ویلیو کتنی گھٹی یا کتنی بڑھی؟ اس کا کچھ لحاظ نہیں کیا جاتا، یہ صرف سود جائز وحلال سمجھنے کی ایک ناقابل قبول تاویل ہے ۔ آدمی ایف ڈی وغیرہ کی مد میں جو پیسہ جمع کرتا ہے، اس کی حیثیت شرعاً قرض کی ہوتی ہے اور شریعت میں قرض پر کچھ بھی اضافہ لینا سود ہوتا ہے خواہ وہ کسی نام سے لیا جائے؛ کیوں کہ شریعت میں نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔

    قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا، کما علم عما نقلہ عن البحر (رد المحتار) الفضل المشروط في القرض ربا محرم لا یجوز للمسلم أخذہ من أخیہ المسلم أبدًا، لإجماع المجتہدین علی حرمتہ فلم یقل أحد منھم بجواز الفضل المشروط فی القرض(إعلاء السنن،رسالة کشف الدجی علی حرمة الربا ۱۴:۵۳۳ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراتشی)،الربا ہو القرض علی أن یؤدي إلیہ أکثر أو أفضل مما أخذ(حجة اللّٰہ البالغة، الربا سحت باطل ۲:۲۸۲)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند