معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 168387
جواب نمبر: 16838701-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:457-452/sd=6/1440
جی نہیں! سودی رقم کا استعمال کورٹ اور وکیل کی فیس میں کرنا جائز نہیں ہے، ایسی رقم ثواب کی نیت کے بغیر غریبوں پر صدقہ کردینا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میں
نے ایک سرکاری نوکری کے لیے درخواست دی ہے۔ اس کے ذمہ داران پیسہ مانگ رہے ہیں، جو
کہ سب کو ادا کرنا ہوگا۔ کیا میں ان کو سود کی وہ رقم دے سکتاہوں جو کہ میرے بینک
اکاؤنٹ میں ہے؟
میرے
والد نے کافی عرصہ پہلے اپنی زندگی کا بیمہ کروایا تھا مگر اب اس کو ختم کروادیا
۔وہاں سے سترہ ہزار روپئے ملے ہیں ۔بیمہ والوں نیبتایا کہ اس میں دس ہزار ہمارے
ہیں اور سات ہزار منافع ہے۔ سوال یہ ہے کہ (۱)اس میں سے کون سی رقم
اپنے استعمال میں لے سکتے ہیں اور کون سی نہیں؟ جو استعمال نہیں کرسکتے اس کا کیا
کریں؟
میں ایک آئل ریفائنری میں کام کررہا ہوں اور مجھے ایک انشورنس کمپنی کی طرف سے (ڈاٹا آپریٹر) کی پیش کش ہے۔ کیا میں انشورنس کمپنی میں کام کرسکتا ہوں، کیا یہ حلال ہے یا حرام؟
1259 مناظربینک میں رقم رکھ کر سود حاصل کرکے خرچ چلانا؟
3183 مناظرمیں
ایک سرکاری ملازم ہوں میں جس کمپنی میں کام کرتاہوں وہ ایک ایسی کمپنی ہے جو خود
منافع کماتی ہے اور اس منافع سے اپنے ملازموں کو کچھ سہولتیں مہیا کراتی ہے، لیکن
ان سہولتوں پر کچھ سود بھی لیتی ہے لیکن یہ سود انسان کے مرجانے پر معاف ہے۔ ایک
خاص مسئلہ مکان کا بھی ہے جو کہ بغیر قرض لئے خریدنا ناممکن سا لگتا ہے اور کمپنی
اس کے لیے ایک بڑی رقم دیتی ہے اور وہ رقم تھوڑی تھوڑی کرکے پندرہ سالوں میں
تنخواہ سے کاٹ لیتی ہے ۔ جس وقت پورا پیسہ کٹ چکا ہوتا ہے اس وقت مکان کی قیمت ادا
کئے پیسے سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے اور اگر پیسہ ادا کرنے سے پہلے آدمی مر جائے تو
پیسہ نہیں لیا جاتا بلکہ وہ انشورنس کمپنی ادا کرتی ہے جو کہ پیسہ لیتے وقت کمپنی
کرواتی ہے۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں؟
لائف انشورنس بیمہ پالیسی حلال ہے یا حرام؟
3640 مناظر