• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 165392

    عنوان: ایل آئی سی میں رقم جمع کرنے کی صورت میں جو رقم زیادہ ملتی ہے اس كا حكم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ میں کہ: (۱) زید ہر مہینہ ۵۰۰/ روپیہ مثلاً ایل آئی سی جیسے ادارے میں دیتا ہے اور مثلاً ۱۰/ سال تک دے گا۔ لیکن ۱۰/ سال کے بعد کتنی رقم ملے گی وہ نہ زید کے علم میں ہے نہ ادارہ کے۔ اس صورت میں کیا زیادہ رقم زید کے لئے جائز ہے؟ (۲) بینکوں اور ڈاک خانوں وغیرہ میں جو فکس ڈپوزٹ ہوتے ہیں، اس صورت میں جو زیادہ رقم دی جاتی ہے، اس کا کیا علم ہے۔ اگر اس زیادہ رقم کو کسی غریب کو یہ کہہ کر دیا جائے کہ تم اپنی خوشی سے کچھ رقم اس سے لے لو اور بقیہ کو ہمارے حوالہ کردو، تو کیا یہ طریقہ جائز ہے؟

    جواب نمبر: 165392

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:95-62/L=2/1440

    ایل آئی سی میں رقم جمع کرنے کی صورت میں جو رقم زیادہ ملتی ہے یا بینکوں اورڈاکخانوں میں رقم فکس کرنے کی صورت میں جمع کردہ رقم سے جو زائد رقم ملتی ہے وہ سود ہے ؛اس لیے ایل آئی سی کرانا یا فکس ڈپوزٹ کرنا جائز نہیں ،اگر کسی نے ایسا کرلیا ہو تو اس کے لیے زائد رقم کا استعمال جائز نہیں ؛بلکہ اس زائد رقم کا بلانیتِ ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے ،محض کسی فقیر کو یہ کہدینا کہ تم اپنی خوشی سے کچھ رقم اس میں سے لے لو اور بقیہ کو ہمارے حوالے کردو کافی نہیں؛بلکہ کل سودی رقم کو بلانیتِ ثواب صدقہ کرناضروری ہے؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ․ (شامی: ۹/۵۵۳ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند