معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 161723
جواب نمبر: 16172301-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1056-964/M=9/1439
ٹرم انشورنس میں جو سالانہ کچھ پیسے کمپنی کو دینے پڑتے ہیں وہ جمع شدہ پیسے اگر کمپنی اضافہ کے ساتھ اس کے گھر والوں کو دیتی ہے تو یہ سودی معاملہ ہے لہٰذا ناجائز اور حرام ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
فتوی:460=417/ل کے لیے آپ کا شکریہ۔ اس فتوی میں آپ نے کچھ سوالات کیے ہیں۔ میں ان کی وضاحت کرتا ہوں۔ یہ انشورنس میری طرف سے نہیں ہے․․․․․میں نے کوئی پالیسی نہیں لی ہے․․․․․اور میں اس طرح کی چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتا ہوں۔ سعودی عربیہ میں یہ بات ضروری ہے، حکومت کی طرف سے آرڈر ہے ان کمپنیوں کے لیے جو لوگوں کو اپنے یہاں رکھتی ہیں ، اپنے ملازمین کو طبی سہولیات فراہم کریں، یہ سہولت وہ اپنی طرف سے طبی اخراجات دے کرکے کرسکتے ہیں، لیکن وہ لوگ یہ کرتے ہیں کہ ان طبی انشورنس کمپنیوں کے ساتھ مل کرکے اپنے ملازمین کو طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ملازم کو اپنے پورے طبی خرچ کا دس فیصدرقم جمع کرنی پڑتی ہے، اس کا تناسب میڈیکل انشورنس کمپنی کے ذریعہ پورا کیا جاتا ہے۔ہمارا انشورنس کمپنی کے ساتھ براہ راست کوئی لین دین نہیں ہوتا ہے، نہ تو ہمیں ان کو کوئی عطیہ وغیرہ دینا پڑتا ہے․․․صرف تمام اخراجات کی چند فیصد رقم ہمیں اس ڈاکٹر یا کلینک کو دینا ہوتا ہے جہاں ہم علاج کراتے ہیں۔ برائے کرم مجھے مشورہ دیں۔
1184 مناظرزید نے ایک شخص سے ایک لاکھ روپئے ایک سال کے لیے مزید ساٹھ ہزار روپئے سود پر لے لیے، اب ایک سال بعد زید نے اسے ایک لاکھ روپئے دیدیے اور مزید ساٹھ ہزار روپئے دینے سے انکار کیا۔ زید اس شخص سے کہتا ہے کہ سود حرام ہے، اس لیے میں مزید سود کی رقم تمھیں نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں زید کو اسلام کا کیا حکم ہے کہ وہ مزید سود والی رقم بھی ادا کردے یا اس کو روک لے اور اس معاملہ پر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے؟ اگر کسی فقہی کتاب کا حوالہ بھی دے دیا تو بڑی مہربانی ہوگی۔ واجرکم علی اللہ
1993 مناظر