• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 161319

    عنوان: قسط پر گاڑی ٹریکٹر لینا کیسا ہے ؟

    سوال: قسط پر گاڑی ٹریکٹر لینا کیسا ہے ؟

    جواب نمبر: 161319

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1062-926/sd=9/1439

    اگرعقد کے وقت گاڑی کی مجموعی قیمت متعین ہوجائے چاہے وہ قیمت نقد کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی کیوں نہ ہو اور پھرقیمت کی وصولیابی کے لیے قسطیں مقرر کرلی جائیں، ہرقسط کی مقدار اور اس کی ادائیگی کی تاریخ بھی طے ہوجائے اور اس معاملے میں وقت مقررہ پر کسی قسط کی عدم ادائیگی یا کمی کی صورت میں اصل قیمت میں اضافے کی کوئی شرط نہ ہو، تو اس طرح قسط پر گاڑی ٹریکٹر خریدنا جائز ہے ۔واضح رہے کہ اکثر گاڑیوں کے شوروم میں قسطوں پر معاملہ بینک کے توسط سے کیا جاتا ہے ، جس میں بینک گاڑی خریدنے والے کے نام لون جاری کرتا ہے پھر اضافے کے ساتھ مقررہ قسطوں کی شکل میں اپنا قرضہ وصول کرلیتا ہے ، وقتِ مقررہ پر کسی قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں قرض کی رقم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ؛ یہ شکل سود کی وجہ سے ناجائز ہے ، جس شوروم میں اس طرح خرید وفروخت کا معاملہ کیا جاتا ہو، اس سے بائک وغیرہ خریدنا شرعا ناجائز ہے ۔

    وفی المجلة، رقم المادة: ۲۲۵: البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، وفی قضایا فقہیة معاصرة: أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد (ص:۷) قال الإمام الترمذی: وقد فَسَّر بعض أہل العلم قالوا بیعتین فی بیعة أن یقول: أبیعُک ہذا الثوب بنقد بعشرة وبنسیئة بعشرین، ولا یفارقہ علی أحد البیعتین فإذا فارقہ علی أحدہما، فلا بأس إذا کانت العقدة علی أحد منہما۔ (الترمذی، بابُ ما جاء فی النہی عن بیعتین فی بیعة، رقم: ۶۲۳۱) وقال السرخسی: وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ؛ جاز (المبسوط للسرخسی: ۸/۱۳، ط: دار المعرفة، بیروت، وکذا فی مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر: ۷۸/۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند