معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 161203
جواب نمبر: 161203
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:925-1199/N=1/1440
بیچنے والا خریدار سے جی ایس ٹی کے نام سے جو مزید رقم وصول کرتا ہے، وہ شرعاً سامان کی قیمت ہی کا حصہ ہوتا ہے، یعنی: خریدار، بیچنے والے کو جو کچھ دیتا ہے، وہ سب کا سب سامان کی قیمت ہوتی ہے؛ کیوں کہ سرکار کی طرف سے جی ایس ٹی کا مطالبہ بیچنے والے سے ہوتا ہے، خریدار سے نہیں؛ البتہ سرکار کی طرف سے بیچنے والے کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ جی ایس ٹی کی وجہ سے سامان کا ریٹ بڑھادے؛ کیوں کہ اگر وہ اپنی جیب سے جی ایس ٹی ادا کرے گا تو اس کا کاروبار خسارے میں جائے گا اور سامان کی قیمت میں جی ایس ٹی اس لیے ظاہر کی جاتی ہے؛ تاکہ خریدار کو زیادہ پیسہ ادا کرنے میں غیر معمولی گرانی نہ ہو اور وہ بیچنے والے کی مجبوری تصور کرے، پس خلاصہ یہ کہ حکومت کو جی ایس ٹی ادا کرنے والا شرعاً بیچنے والا ہوتا ہے، خریدار نہیں ہوتا، خریدار تو بائع کو جو کچھ دیتا ہے، وہ سامان کی قیمت کی حیثیت سے دیتا ہے اگرچہ قیمت کے کچھ حصہ کو جی ایس ٹی کا نام دیاجاتا ہے؛ کیوں کہ حکومت نے بیچنے والے کو خریدار سے جی ایس ٹی وصول کرنے کا وکیل نہیں بنایا ہے، اسے تو خود بیچنے والے سے جی ایس ٹی چاہیے؛ اس لیے موبائل خریدنے والا موبائل کی قیمت میں جی ایس ٹی کے نام سے جو مزید رقم ادا کرتا ہے، اس میں وہ سرکاری بینک کا سود نہیں دے سکتا، وہ قیمت میں جی ایس ٹی کا حصہ بھی اپنی ذاتی رقم سے ادا کرے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند