• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 159643

    عنوان: انشورنس کا پیسہ لے لیا تو اس کو کہاں خرچ کر سکتے ہیں؟

    سوال: سوال: ایک صاحب ہیں۔ان کے بھائی کا ایک سڑک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا وہ بائک سے تھے اور سامنے والی گاڑی کوئی پک اپ وغیرہ تھی مرحوم کے بھائیوں نے اس گاڑی والے پر کیس کیا تو لگاتار سات سال تک کیس لڑنے کے بعد عدالت نے ان کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ ان کو مرحوم کے لواحقین کو 200000 دو لاکھ روپے کا کلیم دیا جائے اور یہ رقم اس انشورنس کمپنی کو دینی ہو گی جس کمپنی کا مارنے والی گاڑی کا انشورنس تھا اور یہ رقم چار قسطوں میں (ایک سال میں پچاس ہزار) ملنے تھے پھر اس پچاس ہزار روپے پر تقریباً 15 ہزار سے زائد بیاج (انٹرسٹ) بھی لگتا رہا تو کل رقم چار سال میں دو لاکھ ساٹھ ہزار سے کچھ زائد ملی ہے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بیاج تو حرام ہے ہی لیکن کلیم (انشورنس) کے روپے بھی حرام ہیں یا نہیں یا پھر انہیں کہاں استعمال کر سکتے ہیں؟ برائے کرم جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں اور عند اللہ مأجور ہوں اور عند الناس مشکور خیرا

    جواب نمبر: 159643

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:684-609/D=7/1439

    صورت مسئولہ میں سڑک حادثہ اگر گاڑی ڈرائیور کی لاپرواہی اور غلطی کی وجہ سے پیش آیا ہے تو یہ قتل خطا ہے، جس میں قاتل کی عاقلہ پر دیت لازم ہوتی ہے اور غیر اسلامی ممالک میں انشورنس کمپنی عرفاً وقانوناً عاقلہ کے قائم مقام بن گئی ہے، لہٰذا انشورنس کی رقم لینے اور استعمال کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن اگر گاڑی ڈرائیور کی کوئی غلطی نہیں تھی؛ بلکہ بائک خود سے کسی وجہ سے ٹکرائی تھی تو اب گاڑی ڈرائیور کے خلاف مقدمہ کرکے ہرجانا لینا شرعاً جائز نہ ہوگا۔

    والثالث خطأ وہو نوعان․․․․وموجبہ الکفّارةُ والدیة علی العاقلة والأثم دون الإثم․ (الدر المختار مع رد المحتار: ۱۰/ ۱۶۰-۱۶۱، کتاب الجنایات)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند