معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 155085
جواب نمبر: 155085
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 38-24/N=1/1439
صورت مسئولہ میں بینک آپ کو گاڑی کی مد میں دس لاکھ روپے بہ طور قرض دے کر آپ سے سات سال میں مزید کے ساتھ وصول کرے گا، یعنی: کل تیرہ لاکھ پچاس ہزار یا بارہ لاکھ وصول کرے گا اور مزید وصول کی جانے والی رقم شرعاً سود ہوگی اور شریعت میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز اور لعنت کا کام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز اور لعنت کا کام ہے؛ اس لیے آپ بینک سے سودی قرض کے معاملہ کے ساتھ گاڑی نہیں خریدسکتے؛ البتہ اگر کوئی شخص نقد گاڑی خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے؛ لیکن وہ صرف انکم ٹیکس کے مسائل کی وجہ سے مجبوراً نقد نہ خریدکر بینک سے سودی قرض لے کر خریدتا ہے تو شرعاً اس صورت میں گنجائش ہوگی؛ کیوں کہ اس صورت میں سودی قرض کا بنیادی مقصد انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنا ہے۔(مستفاد: فتاوی نظامیہ اوندرویہ ۱: ۲۳۳، ۲۳۴، مطبوعہ: تھانوی آفسیٹ پرنٹرس ، دیوبند، مسائل سود، مرتبہ حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی دامت برکاتہم العالیہ، ص ۲۴۴، ۲۴۵، مطبوعہ: حراء بک ڈپو، دیوبند)۔
قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند