• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 153370

    عنوان: سود کی رقم کہاں خرچ کی جا سکتی ہے ؟

    سوال: زید کا کہنا ہے کہ سود کی رقم چونکہ مال حرام ہوتی ہے اس لئے اسے ظالم افسران کے ظلم کو دفعہ کرنے کے لئے دیا جا سکتا ہے ، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مال حرام بود جائے حرام رفت..کیا زید کا کہنا صحیح ہے ؟

    جواب نمبر: 153370

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1192-1156/N=11/1438

    سود کی رقم حرام اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ رقم مالک سے ناحق طریقہ پر لی جاتی ہے ؛ اس لیے اگر کسی کو سودی قرض دے کر اس سے سود لیا گیا، تو سود کی رقم اسی سود دینے والے کو ہی واپس کرنا ضروری ہے ، اور اگر سود کسی بینک کا ہے تو اس سلسلہ میں فتوی یہ ہے کہ پرائیویٹ یا سرکاری کسی بھی بینک کا سود بینک میں نہ چھوڑا جائے؛ بلکہ بینک سے نکال لیا جائے اور بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیا جائے، اور اگر کسی سرکای بینک کا سود ہے تو وہ ان سرکاری ٹیکسس میں بھی دیا جاسکتا ہے جو شریعت کی نظر میں غلط ہیں، جیسے: انکم ٹیکس، سیل ٹیکس اور ویٹ ٹیکس وغیرہ؛ لیکن سود کی رقم کسی صورت میں ظالم افسران کو بہ طور رشوت نہیں دیا جاسکتا، شرعاً اس کی گنجائش نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ نہ تو غریب ومسکین ہوتے ہیں، اور نہ سودکی رقم ان کی دی ہوئی ہوتی ہے ؛ اس لیے صورت مسئولہ میں زید کی بات صحیح نہیں ہے۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء………،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ(إعلاء السنن۱۴:۳۷۲،ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند