• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 150251

    عنوان: ایل آئی سی میں ملے ہوئے اضافی پیسوں کا حکم

    سوال: زید کے ۶/ لڑکے اور ۲/ لڑکیاں ہیں، زید نے ان سب کے کمروں کی تعمیر کے لیے ۲۵/ سال کے لیے ایل آئی سی اس امید میں کرایا کہ جمع شدہ رقم اور جمع شدہ رقم سے زائد (اضافی مال) جو ملے گی ان سے اپنے اہل و عیال کے رہنے کے لیے کمرے تعمیر کرائے گا، ۲۵/ سال بعد ایل آئی سی والوں نے زید کو جمع شدہ اور اضافی رقم واپس کر دیا، زید کے ایک لڑکے نے اضافی رقم کو صدقہ رکرنے کو کہا جس پر زید کے اہل عیال ناراض ہو گئے، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ اس جمع شدہ مال سے زائد (اضافی مال) کا کیا حکم ہے؟ آیا زید ان پیسوں سے بھی تعمیرات کرا سکتا ہے یا زید اضافی رقم کو بغیر ثواب کی نیت کے صدق کردے؟ جب کہ خود زید کو اضافی رقم کی ضرورت ہے کہ اضافی رقم سے تعمیرات میں سہولت ہوگی اور کسی کی سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی، کیا شریعت میں کوئی ایسی صورت ہے کہ زید کو اضافی رقم صدقہ نہ کرنا پڑے؟ مثلاً ایک عالم صاحب نے زید کو تمویل یا تملیک کا طریقہ بتایا کہ کسی سے زید قرض لے لے اور قرض کی ادائیگی اضافی رقم سے کردے، کیا یہ طریقہ شریعت میں ہے اور ایسا کرنا کیسا ہے؟ واضح ہو کہ زید کی اتنی آمدنی نہیں کہ بغیر قرض لیے تعمیر کرا سکے۔ برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں زید کی پوری رہنمائی فرمائیں، اللہ تعالی آپ حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

    جواب نمبر: 150251

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 896-814/H=7/1438
    ایل آئی سی میں جمع کردہ رقم کی مقدار تک تو حلال ہے اور جمع کردہ رقم پر جو اضافی رقم ملی وہ سود ہے کہ جو حرام ہے، اس کا حکم یہی ہے کہ اس کو تعمیر مکان میں یا اپنے اوپر خرچ کرنا جائز نہیں؛ بلکہ اس کو وبال سے بچنے کی نیت کرکے غرباء فقراء مساکین محتاجوں کو بلانیت ثواب دیدی جائے، زید اور اس کے گھر والوں کے فقر وغربت کے واقعی حالات کیا ہیں؟ ان کو تفصیل سے لکھئے تب لکھا جاسکتا ہے کہ زید اور اس کی اولاد کو اپنے اوپر خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
    جس عالم نے زید کو تملیک وتمویل کا طریقہ بتلایا ہے وہ شرعاً درست نہیں ہے، باقی اس عالم سے لکھواکر اس کی اصل تحریر بھیجیں گے تو اس پر غور کرلیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند