• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 146193

    عنوان: بینک کی تنخواہ بہن کی شادی اور جہیز پر خرچ کرنا؟

    سوال: (۱) کیا بینک کلرک بینک سے ملی تنخواہ کا استعمال کھانے پینے میں نہ کرکے بہن کے جہیز کے لیے استعمال کر سکتا ہے؟ جب کہ جہیز دینا بھی حرام ہے، اور آج کل جہیز نہ دینے پر تو لڑکی پر طرح طرح کے ظلم ہوتے ہیں۔ (۲) کیا بینک کی تنخواہ کسی غریب کو دینا ضروری ہے؟ غریب کس کو کہیں گے؟ (۳) کیا یہ حقوق العباد میں داخل ہے؟کیا بینک کی تنخواہ پر صرف غریبوں کا حق ہے؟ ․․․․․ اگر اِسے بہن کی شادی میں خرچ کیا تو کیا جتنا خرچ کیا اتنا پیسہ غریبوں کو دینا فرض ہے؟ اور نہ دینے پر کیا قیامت کے دن سبھی غریب اس کا حق مانگیں گے؟ ․․․․․․ جیسا اور کسی حق میں ہوتا ہے ، اگر غربیوں کا حق ہے تو کیوں؟

    جواب نمبر: 146193

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 188-184/D=3/1438

     

    (۱) بینک میں سودی لین دین سے متعلق جو کام ہوتے ہیں وہ ناجائز ہیں اور ان کاموں کے بقدر تنخواہ ناجائز اور واجب التصدق ہے، اس کو کسی ناجائز کام میں بھی خرچ کرنا جائز نہیں ہے، صورت مسئولہ میں بینک کلرک کی تنخواہ کاوہ حصہ جو سودی لین دین کرنے اور اس کی لکھا پڑھی کرنے کے بقدر ہے وہ ناجائز ہے اس کو اپنی بہن کے جہیز میں بھی خرچ کرنا جائز نہیں البتہ اگر بہن غریب ہے تو اس کو مالک بنا کر دینے کی گنجائش ہے۔

    نوٹ: آپ نے لکھا ”جب کہ جہیز دینا بھی حرام ہے“ اس جملہ سے کس طرح کا جہیز مراد لیا؟ جاننا چاہئے کہ اگر والدین اپنی خوشی سے اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کو کچھ تحفہ تحائف یا سامان دیں تو جائز ہے بشرطیکہ نام و نمود، شہرت و تفاخر اور زیرباری نہ پائی جائے۔

    (۲) سودی لین دین کرنے اور اس کی لکھا پڑھی کرنے کے مقابلہ میں جو تنخواہ ہے اس کو خود استعمال کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بلا نیت ثواب غرباء ومساکین پر صدقہ کردینا واجب ہے۔ اور شرعاً غریب وہ ہے جس کے پاس صدقہٴ فطر کا نصاب نہ ہو یعنی (اگر قرض ہو تو قرض کو وضع کرکے ) جس کے پاس تقربیاً 612.5 گرام چاندی یا تقریباً ساڑھے ستاسی 87.5 گرام سونا نہ ہو یا سونے چاندی کی مذکورہ مقدار سے کم ہو تو اس کی قیمت، نقد روپئے اور حوائج اصلیہ سے زائد سامان سب مل کر تقریباً 612.5 گرام چاندی کی قیمت کے برابر نہ ہوں۔

    (۳) جس نے لوگوں سے سود کی رقم لی ہے اس کے حق میں تو یہ حق العباد ہے لیکن ملازم کو بشکل تنخواہ جو رقم ملی ہے تو چونکہ وہ بعض گناہ کے کام (سود کی لکھا پڑھی) کی تنخواہ ہے اس لیے یہ حق اللہ کو تلف کرنا ہوا اور قانون اسلام کی خلاف ورزی ہوئی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند