• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 69520

    عنوان: سورہ یونس کی آیت : ۵۸ سے عید میلاد النبی پر استدلال

    سوال: بریلوی حضرات میلاد النبی کی دلیل میں قرآن کی آیت سورہ یونس: ۵۸ دیتے ہیں جہاں اللہ تعالی اس کے فضل اور رحمت پر خوشیاں منانے کا حکم دیتا ہے اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ربیع الاول کے مہینے میں نبی کی آمد اللہ کا بہت بڑا فضل اور تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے اور آپ کی آمد پر خوشیاں منانا اللہ کا حکم ہے۔

    جواب نمبر: 69520

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1312-1353/N=1/1438 بریلوی فرقہ عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جواز کی دلیل میں سورہ یونس کی آیت : ۵۸ سے جو استدلال کرتا ہے ، اہل السنة والجماعة کے نزدیک وہ باطل ومردود ہے ، جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ کسی حدیث میں آیت کریمہ کی یہ تشریح وارد نہیں ہوئی، نیز صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ میں سے کسی نے آیت کریمہ سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواز پر استدلال نہیں کیا اور نہ ہی ان حضرات میں سے کسی نے اسے جائز قرار دیا؛ بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں یہ عمل بدعت وناجائز ہے ، اس سے اجتناب لازم وضروری ہے، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بے اصل وبدعت ہونے پر دار العلوم دیوبند کا ایک مفصل ومدلل فتوی پیش خدمت ہے، اسے بھی ملاحظہ فرمالیں۔ ----------------------------------------------- بعد سلام کے آپ سے میں یہ جانکاری کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ ہر سال مسلمانوں میں ۲۱ ربیع ال اول کو عید میلاد ان نبی کو تیوہار کے طور پر مناتے ہیں اور کہتے ہے کہ آج ہمارے نبی کا پیدایش کا دن ہے کیا یہ سہی ہے شریعت کے طور پر قران اور حدیث میں جایزہے یا پھر بدعت ہے خلاصے کے ساتھ جواب تحریر فرمایں ہمارے نبی کی پیدائش یا ولادت کب ہوئی ؟ بارہ وفات کیا ہے ؟ اور عید میلاد ان نبی کیا ہے ؟ کیا عید میلاد ان نبی ہمارے نبی کے وقت میں بھی منی جاتی تھی یا نہیں ؟ کیا عید میلاد ان نبی اور بارہ وفات قران کی کسی آیت سے ثابت ہے ؟ براے کرم میری اصلاح کے لئے جواب خلاصے کے ساتھ اور جلدی دینے کی کوشش کریں میں جواب کا بے صبری سے انتظار کرونگا Fatwa ID: 366-365/N=4/1437-E (۱- ۵) /۱۲ ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا دن سمجھ کر عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) منانا مذہب اسلام میں بے اصل، ناجائز اور بدعت ہے ، تمام مسلمانوں پر اس سے اجتناب ضروری ہے ، کیوں کہ: الف: /۱۲ ربیع الاول کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت ہونا محض مشہور ہے ، ورنہ جمہور محدثین، مورخین اور علمائے کرام کے نزدیک راجح ومختار یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ ۸یا /۹ ربیع الاول کو ہوئی اور علامہ سید سلیمان ندوی نے رحمة للعالمین میں /۱۲ ربیع الاول کے قول کوغیر معتبر قرار دیا ہے (دیکھئے : سیرت المصطفی، قصص القرآن، رحمة للعالمین وغیرہ)۔ ب: حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور نبی یا ولی وغیرہ کا یوم ولادت منانا کوئی اسلامی چیز نہیں ہے ، یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے ، وہ حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم ولادت کرسمس ڈے کے نام سے مناتے ہیں، اور ہمیں غیروں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے ، عن ابن عمر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فھو منھم رواہ أحمد وأبو داود اھ (مشکوة شریف ص ۳۷۵، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند) ج: عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مذہب اسلام میں امر محدث ہے ، کیوں کہ صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ وغیرہم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں، یہ چیز بہت بعد کی ایجاد ہے ، حدیث میں ہے : من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (مشکوة شریف ص ۲۷ بحوالہ: صحیحین) ، نیز شریعت اسلام میں اعمال کا حسن وقبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پر منحصر ہے ، جس عمل کو آپ نے اچھا فرمایا وہ اچھا ہے ، اورجس کو برا فرمایا وہ برا ہے ، عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا یا کیا، نہ ہی اس عمل کو صحابہ کرام نے کیا، نہ تابعین وتبع تابعین نے کیا، نہ ائمہ اربعہ نے کیا، نہ ہمارے بزرگوں نے کیا، حالانکہ یہ سب لوگ ہم سے کہیں زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت ومحبت رکھتے تھے ؛ اس لیے ہم مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) منانے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ د: راجح قول کے مطابق /۱۲ ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات ہے ، پس یہ وفات کے دن خوشی منانے کا تہوار عجیب ہے ۔ ھ: مذہب اسلام میں عید دو ہیں؛ ایک عید الفطر، دوسرے عید الاضحی، اور احادیث میں جمعہ کو مسلمانوں کے لیے عید قرار دیا ہے ، کہ وہ جمعہ کے دن غسل کرکے صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں اور جامع مسجد میں حاضر ہوکر ایک بڑے مجمع کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں، نیز اللہ کے نیک بندے زیادہ سے زیادہ عبادت: قرآن پاک کی تلاوت اور درود شریف کی کثرت وغیرہ کرتے ہیں، لیکن /۱۲ربیع الاول کے عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ و: بعض جگہوں پر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مختلف قسم کی رسومات بھی انجام دی جاتی ہیں، مثلاً: نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں، اجتماعی ایصال ثواب کی مجالس منعقد کی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور بعض علاقوں میں عظیم میلہ کی شکل میں پورے یا اکثر شہر میں جلوس نکالا جاتا ہے ، جس میں بے شمار منکرات وخرافات پائی جاتی ہیں اورصحیح اسلامی تعلیمات سے ناواقف نئی نسل انہی سب چیزوں کو دین سمجھ ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے ، اور جلوس میں مسلم عوام کا بے تحاشہ پیسہ ضائع کیا جاتا ہے اور بعض علاقوں میں مختلف جگہوں پر بڑے بڑے گیٹ بھی بنائے اور سجائے جاتے ہیں، جن میں ہزاروں؛ بلکہ لاکھوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ اور ایسے میلے ٹھیلے میں مردوں کے ساتھ بے پردہ عورتوں کا بھی ایک عظیم مجمع ہوتا ہے اوریہ سب اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ /۱۲ ربیع الاول کو عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) منانا بالکل بے اصل وبے بنیاد ہے ، شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، نیزاس میں عملی اور اعتقادی منکرات وخرافات بھی پائی جاتی ہیں؛ اس لیے عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) منانا ہرگز جائز نہیں، ناجائز وبدعت ہے ، اس سے اجتباب لازم وضروری ہے ، المدخل (۲: ۳) میں ہے : ومن جملة ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر، ما یفعلونہ فی شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدعٍ ومحرمات جمة۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند