عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 147531
جواب نمبر: 147531
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 407-388/M=4/1438
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا ہرمومن کے لیے لازم ہے؛ لیکن سچی محبت اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ وہ شرعی اصولوں سے نہ ٹکراتی ہو، اس میں شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ تمام لوگوں کے لیے رحمت وسعادت کا ذریعہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت واحوال، فضائل ومناقب اور حیات طیبہ کے مختلف گوشوں پر بیان وتقریر کرنا کارِ ثواب ہے لیکن یہ اسی وقت ہے جب کہ سنت وشریعت کے مطابق ہو، ۱۲/ ربیع الاول کی تاریخ کو خاص کرکے میلاد النبی کے عنوان سے جشن وتہوار منانا،جلسے جلوس کا اہتمام کرنا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ صحابہٴ کرام اور تابعین عظام سے، صحابہٴ کرام سے بڑھ کر سچا عاشق رسول اور جاں نثار کون ہوسکتا ہے، اس کے باوجود صحابہٴ کرام نے کبھی بھی اس دن (۱۲/ ربیع الاول) کو عید اور تہوار کے طور پر نہیں منایا، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخوں میں متعدد اقوال ہیں؛ لیکن وفات کی تاریخ اکثر موٴرخین کے نزدیک ۱۲/ ربیع الاول ہے، اس لیے اسے بارہ وفات بھی کہا جاتا ہے تو ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ اس امت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے سے بڑا المناک سانحہ اور کیا ہوسکتا ہے، اس المناک حادثہ کے دن کو عید اور خوشی کا دن قرار دینا اور ایک دوسرے کو مبارک دینا، نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا وغیرہ کسی سچے ومحبِ رسول کو کیسے گوارہ ہوسکتا ہے؛ لہٰذا اس متعین تاریخ کو جشن میلاد النبی کے طور پر منانا اور اسے باعث اجر وثواب سمجھنا بدعت ہے: ومن جملة ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہار شرائع یفعلونہ فی شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملة الخ (المدخل ۲/۳بحوالہ محمودیہ ڈابھیل ۳/ ۱۶۵) مستفاد کتاب النوازل ۱/ ۵۱۳․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند