عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 146535
جواب نمبر: 146535
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 200-412/B=5/1438
اس کی اصل حدیث سے اتنی ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا اس دن دونوں قبر والے کو عذاب دیا جارہا ہے تو آپ درخت سے ایک ٹہنی توڑی اسے بیچ سے چیر کر دو حصے کئے، ایک حصہ ایک قبر پر گاڑ دیا اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر گاڑ دیا اور یوں ارشاد فرمایا کہ جب تک یہ دونوں ٹہنیاں ہری رہیں گی ان دونوں کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔
اس حدیث میں جو واقعہ گذرا یعنی عذاب دیا جانا، ٹہنی گاڑنا یہ سب بذریعہ وحی آپ کومعلوم ہوا۔ ہمارے پاس وحی نہیں آئی، پھر عذاب میں تخفیف کی وجہ علماء محدثین نے یہ لکھی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی خصوصیت سے ایسا ہوا۔ یہ حکم پوری امت کے لیے نہیں ہے کیونکہ عام صحابہ کرام نے اس پر عمل نہیں کیا، اگر یہ حکم تشریعی ہوتا تو تمام صحابہ کرام اس پرعمل کرتے۔ جو اقوال آپ نے نقل فرمائے ہیں وہ مرجوح قول ہیں، ہمارے احناف کے یہاں اس پر فتویٰ نہیں دیا جاتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند