• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 146535

    عنوان: قبروں پر پھول ڈالنا ار علماء دیوبند پہ اعتراض

    سوال: بریلوی، علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کا حوالہ دیتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ علمائے دیوبند بھی قبروں پر پھول چڑھانے کے قائل ہیں: دیوبندی عالم شیخ انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں: في الدر المختار: إن أنباتَ الشجرةِ مُستَحب․․․ وفي العالمگیری: إن إلقاء الریاحین أیضًا مفید۔ درمختار میں ہے: قبر پر درخت لگانا مستحب ہے۔ اور فتاوی عالمگیری میں قبر پر پھول چڑھانا، ڈالنا بھی ہے: (انور شاہ کشمیری، فیض الباری شرح صحیح بخاری: ۷۲۳، دار الکتب العلمیة بیروت، لبنان۔ برائے مہربانی جواب دیں۔

    جواب نمبر: 146535

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 200-412/B=5/1438

    اس کی اصل حدیث سے اتنی ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا اس دن دونوں قبر والے کو عذاب دیا جارہا ہے تو آپ درخت سے ایک ٹہنی توڑی اسے بیچ سے چیر کر دو حصے کئے، ایک حصہ ایک قبر پر گاڑ دیا اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر گاڑ دیا اور یوں ارشاد فرمایا کہ جب تک یہ دونوں ٹہنیاں ہری رہیں گی ان دونوں کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔

    اس حدیث میں جو واقعہ گذرا یعنی عذاب دیا جانا، ٹہنی گاڑنا یہ سب بذریعہ وحی آپ کومعلوم ہوا۔ ہمارے پاس وحی نہیں آئی، پھر عذاب میں تخفیف کی وجہ علماء محدثین نے یہ لکھی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی خصوصیت سے ایسا ہوا۔ یہ حکم پوری امت کے لیے نہیں ہے کیونکہ عام صحابہ کرام نے اس پر عمل نہیں کیا، اگر یہ حکم تشریعی ہوتا تو تمام صحابہ کرام اس پرعمل کرتے۔ جو اقوال آپ نے نقل فرمائے ہیں وہ مرجوح قول ہیں، ہمارے احناف کے یہاں اس پر فتویٰ نہیں دیا جاتا۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند