• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 177452

    عنوان: ایک بیٹا اور ۴/ بیٹیوں میں وراثت کی تقسیم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام صورت ذیل کے بارے میں کہ :۔ زید ایک بھائی چار بہنیں ہیں۔ اور ان کے والدیں کا انتقال ہو چکا ہے کوئی بھی باحیات نہیں ہے ۔ وراثت میں روپئے کی صورت میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں لیکن کھیت اور مکان ہیں اب زید ان کی تقسیم کر نا چاہتا ہے تو کس طرح کرے؟ اور وہ گھر جس میں زید اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہا ہے کیا وہ بھی تقسیم ہوگا؟ وضاحت کے ساتھ جواب عنایات فرمائیں ،نوازش ہو گی۔

    جواب نمبر: 177452

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:632-488/N=8/1441

    (۱): صورت مسئولہ میں اگر مرحوم اور مرحومہ دونوں کے شرعی وارث صرف یہی ایک بیٹا اور ۴/ بیٹیاں ہیں یا مرحومہ کا انتقال مرحوم سے پہلے ہوا ہے اور کھیت اور مکان وغیرہ صرف مرحوم کا ترکہ ہے تو سارا ترکہ (خواہ وہ کسی شکل میں ہو) بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۶/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے بیٹے (زید) کو ۲/ حصے اور ہر بیٹی کو ایک، ایک حصہ ملے گا۔

    قال اللّٰہ تعالی:﴿یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۱)، ویصیر عصبة بغیرہ البناتُ بالابن الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۲): جی ہاں! جب وہ گھر، مرحوم یا مرحومہ کا ترکہ ہے تو حسب شرع پانچوں بچوں میں تقسیم ہوگا؛ کیوں کہ ترکہ کی ہر چیز میں ہر وارث کا حق وحصہ ہوتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔

    قال اللّٰہ تعالٰی: ”للرجال نصیب مما ترک الوالدٰن والأقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدٰن والأقربون مما قل منہ أو کثر نصیبا مفروضاً“ (سورة النساء، رقم الآیة: ۷)، الترکة تتعلق بھا حقوق أربعة:جھاز المیت ودفنہ، والدین، والوصیة، والمیراث … کذا فی المحیط (الفتاوی الھندیة،کتاب الفرائض، الباب الأول، ۶:۴۴۷، ط: المطبعة الأمیریة، بولاق، مصر)، الترکة فی الاصطلاح ما ترکہ المیت من الأموال صافیاً عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال کما في شروح السراجیة (رد المحتار، کتاب الفرائض،۱۰:۴۹۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند