• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 175191

    عنوان: مرنے کے بعد گورنمنٹ کی طرف سے جو پنشن ملتی ہے اس کا شمار میت کے ترکہ میں نہیں

    سوال: میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ، وہ اپنی زندگی ہی میں ہم سب کواپنی جاے داد کی تقسیم کر گے تھے، جن وارثوں انہوں نی تقسیم کی ان مین ہم ۲ بھائی اور ایک ہماری بہن اور ایک میری والدہ ہیں میری ایک بڑی بہن اور بھی تھیں جنکا پھلے والد صاحب کی حیات ہی میں انتقال ہوگیا تھا،میرے والد صاحب نے اوس وقت مسئلہ دریافت کیا تھا تب مفتی صاحب کی اگر میں اپنی بڑی لڑکی جسکا انتقال ہوگیا ہے کیا اس کا حصّہ نکالنا ضروری ہے کہ نہیں تب معلوم یہ ھوا تھا کی آپکو اختیار و حق حاصل ہے چاہیں نکالیں یا نہ نکالیں ۔ تب والد موحترم نی صرف ہم ۳ بھائی بہنوں اور ہماری والدہ کے درمیان سری تقسیم کردی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کی میرے والد صاحب کی پنشن کا کچھ روکا ہوا پیسہ(Arrears ) آیا ہے جو کی والدہ کے کھاتے میں آیا ہے کیوں کی والد صاحب کے انتقال کے بعد میری والدہ کے نام فیملی پنشن ہوگئی تھی اسلئے جو بھی پیسہ والد صاحب کا آ ئے گا اب وہ والدہ کے ہی کھاتے میں آ ے گا اب دریافت طلب بات یہ ہے کی یہ مال کس کا سمجھا جائے گا والد صاحب کا یہ پھر والدہ صاحبہ کا سمجھا جاے گا . حقیقتن یہ مال کسکا شمار کیا جاے گا والد صاحب کا یا کے پھر والدہ کا کیوں کی حکومت کی طرف سے والد کے انتقال کے بعد یہ والدہ کو دیا گیا ہے ؟ اور اس مال کی تقسیم کس طرح کی جائے گی ؟ کیا جو بہن انتقال کر گئی ہیں انکا بھی حصّہ نکالا جائے گا یا نہیں؟ وارثوں مین ہم تین بہن بھائی اور الحمدل لللہ ایک ہماری والدہ ہیں اور ایک ہماری حقیقی پھوپی بھی موجود ہیں الحمد لللہ. اب اگر والدہ کا مال شمار کیا جاتا ہے تو کیا شرعی حکم نافظ ہوگا اس کے کتنے حصّہ کے جاوینگے ؟ اور والد کا شمار ہوتا ہے تو کیا شرعی حکم نافظ ہوگا اس مال کے کتنے حصّے کے جاوینگے ؟ والد صاحب کے وارثوں مین ۲ بیٹے اور ایک بیٹی اور ایک ہماری والدہ و ایک ہماری حقیقی پھوپی موجود ہیں الحمد اللہ اور ایک بیٹی کا انتقال والد صاحب کی حیات میں ہی ہو چکا تھا اگریہ والدہ کا مال شمار ہوتا ہے اور وہ اگر مثل ترکہ یعنی مثل میراث تقسیم کرنا چاہیں تو وارثوں مین صرف ہم ۳ بھائی بہن موجود ہیں ۲ بیٹے اور ایک بیٹی . براہ کرم جلد از جلد تفصیل سے جواب عنایت فرماویں میں آپکا شکر گزار رہونگا نوٹ: صرف حصّہ معلوم کرنا مقصود ہے یعنی کتنے پرسینٹ کیا فیصدی کس کس کا بنے گا کتنا فیصدی

    جواب نمبر: 175191

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:347-49T/L=4/1441

    مرنے کے بعد گورنمنٹ کی طرف سے جو پنشن ملتی ہے اس کا شمار میت کے ترکہ میں نہیں ہے؛ بلکہ سرکار کی طرف سے محض تبرع واحسان ہے؛ لہٰذا قانوناً جس کے نام یہ پنشن آتی ہو وہی اُس کا مالک ہے، دوسرے لوگ شرعاً وقانوناً اُس کے حق دار نہیں ہیں؛لہذا صورتِ مسئولہ میں ملنے والے پنشن کی رقم کی تنہامالک آپ کی والدہ ہوں گی، مرحوم والد کے دیگر ورثاء کا اس میں حصہ نہ ہوگا۔لأن الترکة ما ترکہ المیت من الأموال صافیًا عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال. (شامی / کتاب الفرائض ۴۹۳/۱۰زکریا) البتہ اگر والد نے اس کے علاوہ کوئی چیز چھوڑی ہوگی تو اس میں تمام ورثاء کا ان کے حصص کے اعتبار سے حصہ ہوگا ،اگر آپ کے والد صاحب کے انتقال کے وقت ان کے والدین ،دادا ،دادی اور نانی میں سے کوئی حیات نہ رہا ہو تو آپ کے والد مرحوم کا تمام ترکہ ۴۰/حصوں میں منقسم ہوکر ۵/حصے آپ کی والدہ کو۱۴/۱۴/حصے آپ دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو اور ۷/حصے آپ کی بہن کو ملیں گے جس بہن کی وفات آپ کے والد کی حیات میں ہوگئی تھی اسی طرح آپ کی پھوپھی کا آپ کے والد کے ترکہ میں حصہ نہ ہوگا، جہاں زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ ہے تو اگر آپ کے والد صاحب نے تقسیم کرنے کے بعد ہرایک کو اس کے حصے کا مالک وقابض بھی بنادیا تھا تب تو ہرایک اپنے اپنے حصے کا مالک ہوگا اور اگر صرف زبانی یاتحریری تقسیم کی تھی مالک وقابض نہیں بنایا تھا تو ہبہ تام نہ ہوا ایسی صورت میں تمام جائیداد کی تقسیم ورثاء کے درمیان ان کے حصص شرعیہ کے اعتبار سے ہوگی ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند