• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 175164

    عنوان: وارث یا غیر وارث کے لیے وصیت اور بعض متعلقہ مسائل

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اور علماء عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں:- سوال1۔سنی مسلم قانون کے مطابق کئی وارثوں کے رہتے کسی ایک وارث کو وصیت کرنا ٹھیک ہے یا نہیں اور کیا وارثوں کو بھی وصیت کی جا سکتی ہے؟ سوال2۔ کسی شخص کے چند بیٹے ہوں تو وہ اپنے کسی ایک بیٹے کو وصیت کر سکتا ہے یا اپنی جایداد دے? سکتا ہے؟ سوال3۔ کسی بھی شخص یا انسان کو کئی وارثوں کے رہتے اپنی جائداد کا تہائی سے زیادہ وصیت کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 175164

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:285-47T/N=4/1441

    (۱): شریعت نے وارث کے لیے وراثت رکھی ہے، وصیت اُن کے لیے نہیں ہے؛ لہٰذا کسی ایک، چند یا سب وارثوں کے لیے وصیت کرنا شرعاً صحیح ومعتبر نہیں، یعنی: وارث یا وارثین کے لیے وصیت کی صورت میں بھی مرحوم کا ترکہ،وراثت کے ضابطوں کے مطابق ہی تقسیم ہوگا، وصیت کے مطابق نہیں؛ البتہ اگر سب ورثہ عاقل وبالغ ہوں اور سب اپنی خوشی سے کسی ایک، چند یا سب وارثین کے لیے مرحوم کی وصیت کی تنفیذ پر راضی ہوں تو مرحوم کی وصیت نافذ ومعتبر ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کچھ وارث عاقل وبالغ ہوں یا ان میں سے بعض راضی ہوں تو ان کے حصوں کے بہ قدر مرحوم کی وصیت نافذ ومعتبر ہوجائے گی۔

    عن أبي أمامةقال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول في خطبتہ عام حجة الوداع: ”إن اللہ قد أعطی کل ذي حق حقہ فلا وصیة لوارث“ رواہ أبو داود وابن ماجة (مشکاة المصابیح، کتاب الوصایا، الفصل الثاني، ص ۲۶۵، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، ولا لوارثہ ……إلابإجازة ورثتہ لقولہ علیہ الصلاة والسلام:” لا وصیة لوارث إلا أن یجیزھا الورثة“(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوصایا،۱۰: ۳۴۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وإن أجاز البعض دون البعض یجوز علی المجیز بقدر حصتہ دون غیرہ لولایتہ علی نفسہ فقط (مجمع الأنھر، کتاب الوصایا، ۴: ۴۱۹، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

    (۲): بیٹے کے لیے وصیت کا حکم تو اوپر آگیا۔ باقی دوسرے بیٹوں اور وارثین کو نقصان پہنچانے کے قصد سے صرف کسی ایک بیٹے یا بیٹی کو زندگی میں جائداد وغیرہ دینا اور دوسرے بیٹوں اور وارثین کو کچھ نہ دینا ظلم ونا انصافی ہے، جو شریعت میں جائز نہیں؛ البتہ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی مالی اعتبار سے انتہائی کمزور ہو اور دوسرے بیٹے بیٹیاں مضبوط ہوں یا کسی بیٹے نے دوسروں سے زیادہ ماں باپ کی خدمت وغیرہ کی ہو تو ایسی صورت میں کچھ تھوڑا موڑا دیدینے میں کچھ حرج نہیں بہ شرطیکہ دوسرے بیٹوں اور بیٹیوں کو نقصان پہنچانے کا قصد وارادہ نہ ہو اور نہ بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے؛ بلکہ مجبور کی ضرورت کی تکمیل یا اس کی خدمت کا بدلہ کا پہلو غالب وظاہر ہو۔

    وفی الخانیة: لا بأس بتفضیل بعض الأولاد فی المحبة؛ لأنھا عمل القلب،وکذا فی العطایا إن لم یقصد بہ الإضرار…ولو وھب في صحتہ کل المال للولد جاز وأثم (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الھبة، ۸: ۵۰۱، ۵۰۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ولو وھب جمیع مالہ لابنہ جاز فی القضاء وھو آثم نص عن محمد وھکذا فی العیون (خلاصہ الفتاوی ، کتاب الھبة ۴: ۴۰۰، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، أما إذا قصد الوالد الإضرار أو تفضیل أحد الأبناء علی غیرہ بقصد التفضیل من غیر داعیة مجوزة لذلک فإنہ لا یبیحہ أحد (تکملة فتح الملھم ، کتاب الھبات ۳:۶۵، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)، ولو کان الولد مشتغلا بالعلم لا بالکسب، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ کذا فی الملتقط (الفتاوی الھندیة، کتاب الھبة الباب السادس فی الھبة للصغیر، ۴: ۳۹۱، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر )، وإن کان بعض أولادہ مشتغلاً بالعلم دون الکسب لا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ، وعلی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطي من أولادہ من کان عالماً متأدبا، ولا یعطي من کان منھم فاسقاً فاجراً، مذکورة في شرح الطحاوي ( الفتاوی السراجیة، کتاب الھبة ، باب أحکام الھدایا ص ۴۱۰، ۴۱۱، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)، ولو أعطی بعض ولدہ شیئاًدون البعض لزیادة رشدہ لا بأس بہ، وإن کانا سواء لا ینبغي أن یفضل (خلاصة الفتاوی، کتاب الھبة، ۴:۴۰۰، ط:المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    (۳): وارث کے لیے تو تہائی سے زائد یا تہائی کے اندر وصیت جائز نہیں جیسا کہ اوپر لکھا گیا۔ اور اگر غیر وارث کے لیے وصیت کی جائے تو تہائی کے اندر جائز ہے اگرچہ وارثین راضی نہ ہوں۔ اور اگر سب ورثہ عاقل وبالغ ہوں اور سب راضی ہوں تو تہائی سے زائد بھی جائز ہے۔ اور بعض عاقل وبالغ ہوں یا بعض راضی ہوں تو صرف ان کے حصوں میں تہائی سے زائد جائز ہوگی، اوروں کے حصوں میں نہیں۔ اور اگر وارثین کی مالی حالت اچھی نہ ہو اور ترکہ کی مقدار بہت زیادہ نہ ہو تو کسی غیر وارث کے لیے تہائی سے کم وصیت کرنا یا بالکل ہی وصیت نہ کرنا بہتر ہے، حدیث میں ہے: اپنے وارثین کو بے نیاز چھوڑکر جانا انھیں ایسا محتاج چھوڑکر جانے سے بہتر ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔

    وإن أجاز البعض دون البعض یجوز علی المجیز بقدر حصتہ دون غیرہ لولایتہ علی نفسہ فقط (مجمع الأنھر، کتاب الوصایا، ۴: ۴۱۹، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، وتصح الوصیة بالثلث للأجنبي وإن لم یجیزوا لقولہ علیہ الصلاة والسلام: ” إن اللہ تصدق علیکم بثلث أموالکم في آخر أعمارکم زیادة لکم في أعمالکم فضعوھا حیث شئتم“ وقال: حیث أحببتم وللإجماع علی ذلک (المصدر السابق)، قال علیہ الصلاة والسلام لسعد بن أبي وقاص:إنک أن تذر ورثتک أغنیاء خیر من أن تذرھم عالة یتکففون الناس (مشکاة المصابیح، باب الوصایا، الفصل الأول، ص: ۲۶۵، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)، وندبت بأقل منہ ولو عند غنی ورثتہ أو استغنائھم بحصتھم کما ندب ترکھا بلا أحدھما أي: غنی واستغناء الخ (الدر المختار، کتاب الوصایا، ۱۰: ۳۴۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وحاصلہ أنہ لا تنبغي الوصیة بتمام الثلث؛ بل المستحب التنقیص عنہ مطلقاً؛ لأنہ علیہ الصلاة والسلام قد استکثر الثلث بقولہ: ”والثلث کثیر“؛ لکن التنقیص عند فقر الورثة وإن کان مستحباً إلا أن ثمة ما ھو أولی منہ، وھو الترک أصلاً الخ (رد المحتار، ۱۰: ۳۴۱)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند