• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 173637

    عنوان: ہر وارث کا حق ترکہ کے عین میں ہوتا ہے

    سوال: میرے والدصاحب کا انتقال 6 ماہ پہلے ہوا ہے ان کے نام ایک فلیٹ ہے جس میں بھائی کی فیملی اور امی رہتے ہیں میری دادی حیات ہیں جو کے ساتھ نہیں رہتی پر ان کا اپنا گھر ہے اور وہ بستر پر ہیں ان ک اپنے اخراجات ہیں جو4 پھوپی مل کے اٹھا رہی ہیں کیوں کہ دادی ابوکی وارث ہیں تو ان کا حق ادا کرنے کے لیے وہ فلیٹ بیچنا پڑے گا؟کیونک بھائی کی آمدنی محد ود ہے اتنی بڑی رقم نہیں ادا کرسکتا.ہم 2 بہنیں اور 1 بھائی ہیں،ہم بہنوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا نہ ہی دادی کی طرف سے کسی نے ایسا کوئی مطالبہ رکھا ہے اور کیا اس میں پھوپیوں کا بھی حصہ ہوگا؟

    جواب نمبر: 173637

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:43-27/N=2/1441

    (۱): آپ کے والد مرحوم نے فلیٹ سمیت جو کچھ ترکہ چھوڑا ہے، آپ کی دادی کا حق سب میں ہے، صرف فلیٹ ہی میں نہیں۔ اور ہر وارث کا حق مرحوم کی بعینہ چھوڑی ہوئی چیز میں ہوتا ہے؛ لہٰذا دادی یا کسی بھی وارث کو اس کے حصے کی فلیٹ کی قیمت لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا؛ البتہ اگر کوئی وارث اپنی مرضی وخوشی سے حصے کے بجائے پیسہ لینے پر راضی ہو تو مناسب قیمت پر لین دین کرنے میں کچھ حرج نہیں۔

    الترکة فی الاصطلاح ما ترکہ المیت من الأموال صافیاً عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال کما في شروح السراجیة (رد المحتار، کتاب الفرائض،۱۰:۴۹۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۲):بہ شرط صحت سوال صورت مسئولہ میں آپ کے والد مرحوم کا سارا ترکہ حسب شرع ۹۶/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ۱۶/ حصے آپ کی دادی کو، ۱۲/ حصے آپ کی والدہ کو ، ۳۴/ حصے آپ کے بھائی کو اور ۱۷، ۱۷/ حصے آپ کو اور آپ کی بہن کو ملیں گے۔ اور صورت مسئولہ میں آپ کی پھوپیوں کو آپ کے والد مرحوم کے ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا؛ کیوں کہ مذکر اولاد کی موجودگی بہنیں وارث نہیں ہوتی ہیں۔ تخریج کا نقشہ حسب ذیل ہے:

    ام        =        16

    زوجہ     =        12

    ابن       =        34

    بنت      =        17

    بنت      =        17

    قال اللہ تعالی:﴿ فإن کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم الآیة ﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۲)۔

    وقال تعالی أیضاً: ﴿فإن کان لہ إخوة فلأمہ السدس﴾ (سورة النساء، رقم الآیة: ۱۱)۔

    و قال تعالی أیضاً: ﴿یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۱)۔

     وعن ابن عباسقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألحقوا الفرائض بأھلھا فما بقي فھو لأولی رجل ذکر منھم، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب الفرائض، الفصل الأول، ص ۲۶۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    فیفرض للزوجة فصاعداً الثمن مع ولد الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۱۱، ۵۱۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    وللأم …السدس مع أحدھما الخ (المصدر السابق، ص: ۵۱۴)۔

    ثم العصبات بأنفسھم أربعة أصناف: جزء المیت ثم أصلہ ثم جزء أبیہ ثم جزء جدہ ویقدم الأقرب فالأقرب منھم بھذا الترتیب فیقدم جزء المیت کالابن ثم ابنہ وإن سفل الخ (المصدر السابق، ص: ۵۱۸)۔

    ویصیر عصبة بغیرہ البناتُ بالابن الخ ( المصدر السابق ، ص:۵۲۲)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند