• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 172393

    عنوان: والدین كی حیات میں بھائیوں میں علیحدگی اور بٹوارہ

    سوال: جناب مفتی صاحب درجہ ذیل مسئلے کی وجہ سے میں شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہوں۔ مہربانی کرکے شرعی اعتبار سے وضاخت فرمائیں ہم تین بھائی اور چاربہنیں ہے۔ میں سعودی عرب میں کام کرتا ہوں اور باقی دو بھائی پاکستان میں سرکاری سکول میں استاد ہیں۔ دونوں کی تنخواہیں اتنی ہے کہ آرام سے دونوں کا گزارا ہوجاتا ہیں۔ اور بچت بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور والد صاحب ریٹائرڈ سرکاری سکول استاد ہیں لیکن ابو کی پنشن امی ابو کے خرچہ کیلئے کافی ہوتا ہیں۔ چاروں بہنوں کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ یاد رہے کہ ہم تینوں نے ابو کے پیسے سے تعلیم حاصل کی ہے اور ابو نے ہم تینوں کو تعلیم حاصل کرنے کا یکساں حق دیاہے۔ میں چونکہ چھوٹا بیٹا ہوں اسلیے مجھے تعلیم اور رہائش کے خرچ کیلیے باقی دو بھائی ابو کے پیسوں میں سے پیسے بجھوانے کیلیے پچاس کیلومیٹر دورشہرجانے کی زخمت کرتے تھے۔ ابوکے پیسے نہ ہونے کی صورت میں کسی سے قرضہ لے کربجھوا دیتے، بعد میں ابو کی تنخواہ میں سے قرضہ واپس کرا دیتے۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک ادھ دفعہ بھائیوں نے کچھ پیسے اپنی طرف سے بھی بھیجی ہو۔ میں نے سعودی عرب جانے کیلیے ویزا ابو کے پیسے سے تقریبآ پانچ لاکھ میں لیا تھا۔ میں نے اپنی کمائی میں سے والدین اور دونوں بھائیوں کو حج کروایے ہیں۔ امی کو ایک دفعہ الگ عمرہ کروایا ہے۔ والدین کومہینے دو مہینے میں خرچ کیلیے الگ سے پیسے بھی بھیجتا رہتا ہوں۔ اور گھر کے مختلف کاموں کیلیے بھائیوں کو بھی پیسے بھیجے ہیں۔ ہم نے ایک پلاٹ بھی لیا ہے جوپورا میرے پیسے سے لیا گیا ہے۔ ایک قطعہ زمین بھی چالیس لاکھ کا لیا ہے جس میں تیئس لاکھ میرا حصہ، پانچ پانچ لاکھ بھائیوں کا حصہ اور سات لاکھ گھرکا مشترکہ سونے کوبیچ کر۔ ہم سارے ابھی والد صاحب کے گھرمیں رہ رہے ہیں اور والدین الحمدللہ حیات ہیں۔ میرے سوالات درجہ زیل ہیں۔ ۱۔ اب جب ہم تین بھائی الگ الگ ہونے کیلیے تقسیم کرتے ہیں۔ تو شریعت کے اعتبار سے پلاٹ میں میرے ساتھ بھائیوں کا کیا حصہ ہوگا۔ ۲۔ زمین کس حساب سے ہم تینوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ۳۔ والدین اگر مجھے بھائیوں کی ایسی مدد کرنے کا کہتے ہیں جو شرعی اعتبارسے میرے زمے نہ ہو، تو کیا اس صورت میں والدین کا خکم نہ ماننے پر میں گنہگارہوگا۔ یاد رہے کہ میں والدین کو ہروقت کہتا رہتا ہوں کہ اپ دونوں کا جو بھی خدمت ہوں سرانکھوں پر، لیکن بھائیوں کیلیے میں مزید خرچے اسلیے نہیں کر سکتا کہ وہ دونوں خود صاحب استطاعت ہیں۔ اور اللہ نہ کرے اگر کل کو واقعی بھائیوں کی ایسی کوئی ضرورت پڑ گئی جو وہ خود استطاعت نہ رکھتے ہوں تو میں مدد کیلئے تیار ہو۔ انشاَاللہ۔

    جواب نمبر: 172393

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1126-1044/M=12/1440

    (۱) اگر پلاٹ آپ نے ذاتی پیسے سے لیا ہے اس میں کسی بھائی کا کوئی پیسہ نہیں لگا ہے اور پلاٹ خرید کر اپنی ملکیت میں برقرار رکھا ہے، والد صاحب یا بھائی کو دے کر مالک نہیں بنایا ہے تو وہ پلاٹ آپ کی ملکیت ہے اس کے تنہا مالک آپ ہیں ، اور آپ کو ہر تصرف کا حق حاصل ہے۔

    (۲) زمین کی خریداری میں جس تناسب سے آپ لوگوں کا پیسہ لگا ہے اسی تناسب سے تقسیم ہونی چاہئے۔ لیکن اگر صورت حال یہ ہے کہ آپ لوگوں نے پیسے والد صاحب کو ہبةً دے کر مالک بنا دیا تھا اور پھر والد صاحب نے زمین خریدی ہے تو وہ والد صاحب کی ملکیت قرار پائے گی، اس صورت میں والد صاحب جب تک حیات ہیں وہ خود مختار ہیں اُن کے انتقال کے بعد شرعی طریقے پر تقسیم ہوگی اگر صورت حال کچھ اور ہے تو وضاحت فرماکر سوال کر سکتے ہیں۔

    (۳) معلوم نہیں ایسی مدد سے کونسی مدد مراد ہے؟ بہرحال جہاں تک ہوسکے کوشش کریں کہ والدین کا حکم ٹوٹنے نہ پائے، اگر استطاعت ہے تو بھائیوں کی مدد کر دیا کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند