معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 172365
جواب نمبر: 172365
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1071-203T/sn=12/1440
(الف ) لیز پر جو زمین لی جاتی ہے وہ شرعی اعتبار سے اجارہ اور کرایہ داری کا معاملہ ہوتا ہے، ” لیز“پر لینے کی وجہ سے آدمی شرعا مالک نہیں ہوتا اور وراثت صرف مملوکہ مال میں جاری ہوتی ہے؛ لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے نانا نے جو زمین لیز پر لی تھی اس میں وراثت جاری نہ ہوگی اور نہ ہی اسے فروخت کرنا شرعا جائز ہوگا؛ لہذااس میں اجرائے وراثت کا سوال بے محل ہے۔(ب) اگر لیز پر لی ہوئی زمین کو حسب ضابطہ آگے کرایے پر دے کر کوئی آمدنی حاصل کی جاتی ہے تو اس میں نانا کے تمام بیٹے یٹیوں کی اولاد کا حق ہوگا یعنی اوّلاً ان کی تمام اولاد کے درمیان للذکرمثل حظ الانثیین(بیٹوں کو بیٹیوں کا دو گنا) تقسیم ہوگی پھر ان میں سے ہرایک کا حصہ ان کے ورثا یعنی: بیوی اور ان کی اولاد وغیرہ کے درمیان بھی اسی ضابطے کے مطابق تقسم ہوگی۔(ج) سوال میں اس کا تو ذکر ہے کہ نانا کا ترکہ تقسیم ہوا تھا؛ لیکن یہ مذکور نہیں ہے کہ اس میں ضابطہٴ شرعیہ کی رعایت کی گئی تھی یا نہیں؟ مثلا بیٹیوں کو شرع کے مطابق حصہ دیا گیا تھا یا نہیں؟ اگر نہیں دیا گیا تھا تو یہ شرعی تقسیم نہ تھی ، نانا کی تمام متروکہ جائداد میں ان کے چاروں بیٹوں کے ساتھ چاروں بیٹیوں کا بھی حق ہے؛ اس لیے ایسی صورت میں نانا مرحوم کے پورے ترکہ کی تقسیم از سر نو شریعت کے مطابق کرلی جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند