• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 169836

    عنوان: نکاح کرلینے سے بیوہ کا حصہ وراثت ختم نہیں ہوتا

    سوال: ایک آدمی کی بیوی فوت ہوگئی۔ پہلی بیوی سے سات بیٹے شادی شدہ ہیں ۔اس شخص نے ایک جوان لڑکی سے شادی کی ۔اس دوسری بیوی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہو گئے ۔شوہر حادثہ میں فوت ہو گیا ۔ پہلی بیوی کے بیٹوں نے مہر اور وراثت نہ دینے کے بہانے اپنی ماں پر جھوٹی تہمت لگا کر گھر سے بیٹے اور بیٹی کیساتھ نکال دیا ۔ اب اگر یہ بیوہ دوسری کسی کی ساتھ نکاح کرے تو پہلے شوہر کے وراثت میں حصہ دار ہوگا؟اگر ہوگا تو کتنے حصے کا؟

    جواب نمبر: 169836

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:725-598/N=8/1440

    (۱): اگر بیوہ عورت عدت کے بعد دوسرا نکاح کرلے تو سابق شوہر کے ترکہ سے اس کا حصہ وراثت ختم نہیں ہوتا؛ اس لیے اگر سوال میں مذکور جوان یا ادھیڑ عمر بیوہ دوسرا نکاح کرتی ہے تو وہ سابق شوہر کے ترکہ سے محروم نہیں کی جاسکتی؛ بلکہ وہ نکاح ثانی کی صورت میں بھی اپنے حصہ شرعی کی حق دار ہوگی۔ اسی طرح بیوہ کی جو اولادیں مرحوم شوہر سے ہیں، وہ بھی بہ حیثیت اولاد، حصہ پائیں گی۔

    (۲): مرحوم نے اگر اپنے وارثین میں صرف ایک بیوہ، ۸/ بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے اور مرحوم کے ماں، باپ، دادا، دادی اور نانی کا انتقال مرحوم سے پہلے ہی ہوچکا ہے تو مرحوم کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۱۳۶/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ۱۷/ حصے بیوہ کو، ۱۴، ۱۴/ حصے ۸/ بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو اور ۷/ حصے بیٹی کو ملیں گے۔ تخریج کا نقشہ حسب ذیل ہے:

    زوجہ = 17

    ابن = 14

    ابن = 14

    ابن = 14

    ابن = 14

    ابن = 14

    ابن = 14

    ابن = 14

    ابن = 14

    بنت = 7

    قال اللہ تعالی:﴿ فإن کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم الآیة ﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۲)۔

    وقال تعالی أیضاً: ﴿یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۱)۔

     وعن ابن عباسقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألحقوا الفرائض بأھلھا فما بقي فھو لأولی رجل ذکر منھم، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب الفرائض، الفصل الأول، ص ۲۶۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    فیفرض للزوجة فصاعداً الثمن مع ولد الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۱۱، ۵۱۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    ثم العصبات بأنفسھم أربعة أصناف: جزء المیت ثم أصلہ ثم جزء أبیہ ثم جزء جدہ ویقدم الأقرب فالأقرب منھم بھذا الترتیب فیقدم جزء المیت کالابن ثم ابنہ وإن سفل الخ (المصدر السابق، ص: ۵۱۸)۔

    ویصیر عصبة بغیرہ البناتُ بالابن الخ ( المصدر السابق ، ص:۵۲۲)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند